کتاب میلہ اپنے جوبن پر....!
پیمرا کے چیئر مین برادرم سلیم بیگ نے لاہور کتاب میلے کا افتتاح کرکے اپنی کتاب دوستی کا حق ادا کر دیا ہے ،وہ علمی اور ادبی حلقوں کی طرف سے داد اور شکریے کے مستحق ہیں سنا ہے مگر دیکھا نہیں کہ وہ بہت بڑی ذاتی لائبریری کے مالک ہیں ۔کتاب میلے کاآج دوسر اروز ہے۔گذشتہ روز ایکسپوسینٹر میں اس کا افتتاح ہوا تو محمد فیصل کے چہرے سے یک گونہ اطمینان اور مسرت کے جذبات جھلک رہے تھے۔ یہ اس کے خوابوں کی ایک تعبیر ہے ۔کتاب کلچر کو فروغ دینا اس کا فطری شوق ہے ۔ کوئی بیس سال پہلے وہ انڈیا کے ایک کتاب میلے میں شرکت کے لئے گیا تو وہ ہمسایہ ملک میں اردو کتب کی اشاعت دیکھ کر بے حد متاثر ہوا۔ اس نے وہیں یہ عزم کیا کہ وہ اپنے ملک میں بھی واپس جاکرایسے ہی عالمی کتاب میلے سجایا کرے گا۔ یوں اٹھارہ ،بیس سال سے لاہور بک فیسٹول کا انعقاد جاری ہے ۔ سال میں ایک دفعہ کراچی میں بھی کتاب میلہ لگتا ہے اور یوں ملک میں ادب کی آبیاری کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ لاہورکتاب میلے میں 200سے زائداسٹالز لگائے گئے ہیں، جن پر ہر موضوع اور ہرزبان میں شائع ہونے والی کتابیں پیش کی گئی ہیں۔ یہ ایک عالمی میلہ ہے ،جس میں برطانیہ کے ناشرین بھی شمولیت اختیار کرتے ہیں ۔ بھارت نے پانچ اگست 2019ءکو کشمیر میں ایک آئینی جارحیت کا ارتکاب کیا،تو حکومت ِ پاکستان سے تجارتی روابط منقطع کرلئے۔ ورنہ اس سے پہلے تک لاہور کے کتاب میلے میں انڈیا بھر کے ناشرین شرکت کے لئے جوق درجوق آتے تھے۔
پاکستان اس وقت شدیدمعاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے ۔ تاہم کتاب میلے کی رونقیں دیکھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ لاہوریوں کے ذوق و شوق میںکوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کیا بچے ، کیا بوڑھے، کیا مرد، کیا عورتیں،ہر شخص اس عالمی کتاب میلے میں گھوم پھر رہا ہے اور اپنے مطلب کی کتابیں خریدنے میں مصروف ہے ۔ محمد فیصل کا یہ مﺅقف سامنے آچکا ہے کہ حکومت اس میلے کے انعقادکے لئے ایک کروڑ روپے کی فیس وصول نہ کرے۔ حکومت کوکتابوں کی سرپرستی کرنی چاہئے اوراس شعبے کو منفعت خوری سے معاف رکھا جائے تاکہ چھوٹے ناشرین بھی اس میلے میں اپنا اپنا اسٹالز لگاسکیں۔ اس وقت ایک اسٹال سے چار روزکیلئے 70ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس قدر بھاری اخراجات چھوٹے ناشرین برداشت نہیں کرسکتے۔ فی زمانہ کتاب چھاپنا ویسے ہی بڑے دل گردے کا کام ہے ۔
کاغذ،طباعت،سرورق اور جلدسازی پر لاکھوں کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ حکومتی ٹیکسوں اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کاغذ کی قیمت بھی ہر گھنٹے بعد بدلتی ہے ۔ جس کی وجہ سے کتابوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ایک طرف کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ،دوسری طرف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا فروغ،اس کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت اور خرید و فروخت کا کاروبار ماند پڑگیا ہے ۔ آج کتاب مارکیٹ میں شدید کساد بازاری کا عالم ہے ۔ دوکاندار صبح سے شام تک مٹی پھانکتے رہتے ہیں۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود جو لوگ کتابوں کی اشاعت میں مصروف ہیں، اور ان کٹھن ملکی و معاشی حالات کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ تحسین وتوصیف کے مستحق ہیں،مگروہ حکومتِ وقت کی طرف داد رسی کیلئے دیکھ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کتاب میلہ چار روز جاری رہے گااور اس سے عوام کے ایک بڑے طبقے میں کتابوں کے لئے رغبت پیدا ہوگی۔لیکن کتاب کلچر کو مزید فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں محلہ کی سطح پر ”آنہ لائبریریاں “قائم کی جائیں۔ایک زمانہ تھا جب محلہ لائبریریوں سے ایک آنہ ممبر شپ کے عوض کتابیں پڑھنے کیلئے کرایہ پرمل جاتی تھیں۔ اب ان لائبریریوں کا وجود ختم ہوچکا، حکومت کتابوں کی ترویج و اشاعت کیلئے دلچسپی نہیں لے رہی، یونیورسٹیوں، کالجوں،اسکولوں کی لائبریریوں کو کتب خریدنے کیلئے گرانٹ جاری نہیں کرتی یا یہ گرانٹ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہر حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ علم و ادب کے فروغ کی سرپرستی کرے۔تاریخ اسلام میں اموی ،عباسی،اسپین کے خلفاءنے کتاب کلچر کے فروغ کی حد سے بڑھ کر سرپرستی کی۔
بغدادکی لائبریریاں تو ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ ہوگئیں۔ لیکن اسپین کی لائبریریاں یورپی حکمران لوٹ کر لے گئے۔ جنہوں نے ان کتابوں کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا اور اپنے ہاں علم و ادب کی شمعیں روشن کیں۔
برصغیرکے چند ریاستی حکمرانوں نے ادب کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کیا ،خاص طور پر نظام حیدر آباد نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی ،ندوة العلماءدارالمصنفین اعظم گڑھ علم و ادب کے فروغ میں پیش پیش رہے۔ پاکستان میں پہلے روز سے متروکہ وقف املاک کی جائیدادوں پر ہاتھ صاف کیا گیا۔ پھر سرکاری سطح پر قومی خزانے کی لوٹ مار کا عمل شروع ہوا۔ آج ملک بھوکا ننگا ہے، جبکہ چند سو خاندان اپنی دولت کو شمار بھی نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے لوٹ مار کی یہ کمائی بیرون بینکوں میں چھپارکھی ہے ۔ یا بیرون ملک قیمتی جائیدادوں میں سرمایہ لگارکھا ہے ۔ اس طبقے کو کتاب کی اہمیت و افادیت کا کیا پتہ۔ لے دے کے ، ملک کے نوجوان رہ جاتے ہیں جنہیں موبائل فون کے استعمال سے فرصت نہیں ہے۔ موبائل فون کلچر نے ان کے دل ودماغ سن کردیئے، آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے، وہ اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔جب کہ اس کے مقابلے میں اگر وہ کتاب کے مطالعے کی طرف راغب ہوں تو ان کے دل ودماغ کو فرحت و روشنی نصیب ہو۔ بلاشبہ ،کتاب انسان کی زندگی کی بہترین دوست ہے۔ اسے انسان کا ہم دم و دم ساز کہنا بے جا نہ ہوگا ، کتاب کا مطالعہ انسانی سوچ کے لئے نئے دریچے کھولتا ہے ۔
٭٭٭