پی ایس ایل کی رونقیں ، شہریوں کی آہیں
ملتان میں کھیلے گئے پی ایس ایل کے حالیہ میچوں کے دوران چونکہ میں ملتان میں ہی تھا‘ اس لئے ان میچوں کے دوران شائقین‘ غیرملکی کھلاڑیوں اور شہریوں کی سکیورٹی اور انکے حفاظتی انتظامات پر مامور پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کی کارکردگی اور ٹیموں کے گزرنے والے راستے پر بھاری رقوم سے لگائے گئے جنریٹرز اور ہائی وولٹیج روشنیوں کے لامتناہی سلسلہ کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میچوں کے ایام میں شہریوں کی پریشانی‘ ایمبولینسز کے ہوٹرز کو نظرانداز کرنے اور ہنگامی طور پر اپنے گھروں کو جانیوالے مجبور و لاچار شہریوں کی دہائیاں بھی سنیں۔ اسی طرح پولیس اہلکاروں کی گھروں سے باہر نکل کر مرکزی شاہراہوں سے سبزی خریدنے والے شہریوں سے انکی منفی انداز میں گفتگو کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ مرکزی شاہراہوں کے دونوں اطراف لگائی جنریٹرز لائٹس پر اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں پولیس کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جب یہ انکشاف کیا کہ مذکورہ لائٹس پر مبینہ طور پر 90 کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں جن میں شاہراہوں پر بنائے گئے ریمپس توڑنے کی اجرت بھی شامل ہے تو میں حیران و پریشان رہ گیا۔ ٹریفک رفتار کو کم کرنے کے سلسلے میں شاہراہوں پر تعمیر کئے ریمپس کو محض اس لئے توڑنا کہ غیرملکی کھلاڑیوں کے سفر کو بغیر ہچکولوں کے آرام دہ بنایا جاسکے۔ اس انتہائی افسوسناک عمل سے دلی دکھ پہنچا۔ میں نے عمر رسیدہ پیدل چلتے افراد کو بددعائیں دیتے سنا۔ لفظ اگر درست ہے تو اسے آپ میری ”بدذوقی“ کہہ سکتے ہیں کہ ہاکی‘ باسکٹ بال‘ والی بال اور فٹ بال سمیت دیگر کھیلوں سے حکومت اور سپورٹس اتھارٹیز نے جب سے سوتیلا سلوک روا رکھا ہے اور ”قومی کرکٹ“ کو کھیل سے زیادہ منافع بخش کاروبار کا روپ دیا ہے‘ میرا اس کھیل سے لگاﺅ کم اور قومی کھیلوں میں شفافیت کے بارے میں قائم نظریہ میں واضح تبدیلی آگئی ہے۔ حکومت اور کرکٹ بورڈ سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہ محض کرکٹ پروموٹ کرنے کیلئے ہاکی اور دیگر متعدد کھیلوں سے سرپرستی کا ہاتھ اٹھا لینا‘ ابھرتے قومی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہی نہیں‘ دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کرنے کے جذبے کی بھی توہین ہے۔ دیگر کئی کھیلوں کی طرح کرکٹ بھی ایک انتہائی منافع بخش برطانوی کھیل ہے۔ رقم سے زیادہ اس کھیل کی ایک سب سے بڑی خوبی میری دانست میں یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے وہ کھلاڑی جو انگریزی زبان پر عبور نہیں رکھتے اور یا پھر انگریزی زبان سے نابلد ہیں‘ اس کھیل کے ذریعے فرفر انگریزی سیکھنے اور بولنے میں ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ الگ بات کہ تیز رفتار انگریزی بولنے کی نقل اتارنے کے بنیادی طور پر کتنے نقصانات ہیں۔ ان پر پھر کبھی۔ قومی یوتھ باسکٹ بال ٹیم کا زمانہ طالب علمی میں چونکہ کھلاڑی رہ چکا ہوں اس لئے کھیلوں کے اندر اور کھیلوں کے باہر کی جانیوالی ”سپورٹس سیاست“ کا بھی خوب ادراک رکھتا ہوں۔ کھلاڑیوں کے ٹرائلز میں سلیکشن کیسے کی جاتی ہے؟ ہونہار کھلاڑیوں کے بجائے سفارشی کھلاڑیوں کی ٹیم میں کیسے جگہ بنالی جاتی ہے‘ ملک میں دیگر کھیلوں سمیت باسکٹ بال کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی جو ہاکی‘ سکوائش اور کرکٹ کو حاصل ہے۔ موضوع طویل ہے اس پر پھر کبھی سہی کہ آج تو آپ کو ملتان میں کھیلے گئے حالیہ پی ایس ایل میچوں کے بارے میں ہی آگہی دینا ہے۔
ملتان میں کھیلے جانیوالے میچوں کیلئے شام کا وقت طے کیا گیا تھا مگر کھلاڑیوں کو ہوٹلز سے سٹیڈیم تک بحفاظت پہنچانے اور کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے اضافی پولیس فورس کی ہر محلے کی گلی کی نکڑ پر ڈیوٹی لگا دی گئی تھی۔ میچ سے تین چار گھنٹے قبل مرکزی شاہراہیں عوام کیلئے بند کرنے کا حکم تھا تاکہ شہری دکانوں سے اشیاءخریدنے سے اجتناب کرسکیں۔ پولیس اہلکاروں کو سکیورٹی کے پیش نظر مذکورہ Hours میں محلے‘ گلیوں میں رہنے والے شہریوں اور بالخصوص الطاف ٹاﺅن‘ نصرت روڈ‘ ابدالی روڈ اور پرانی شجاع آباد روڈ کے اطراف میں مقیم بچوں‘ خواتین‘ عمر رسیدہ بیماروں اور روٹی اور سبزی خریدنے والوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔ بعض حالتوں میں خواتین کو قبرستانوں میں اپنے پیاروں کیلئے دعائے مغفرت مانگنے پر بھی روکا گیا۔ اس بارے میں جب ایک پولیس اہلکار سے بات کی تو اس کا جواب تھا کہ ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے اختیارات ایس ایس پی اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل اپریشن کے پاس ہیں۔ ہمارا کام تو احکامات پر عمل کرنا ہے۔ مجھے حیرانگی اس بات پر تھی کہ ٹیم کو مکمل حفاظتی اقدامات کے ساتھ ہوٹل سے سٹیڈیم تک لے جانے سے قبل دو یا تین گھنٹے تک گلی محلوں کو بند کرنے کے پس پردہ آخر وہ کونسے ایسے عوامل تھے جن کو پورا کئے بغیر ٹیموں کو سٹیڈیم تک بحفاظت لے جانا ممکن نہ تھا؟ حکومت‘ انتظامیہ اور پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کو چاہیے تو یہ تھا کہ پی ایس ایل کروانے سے پہلے سٹیڈیم کے قریب ترین علاقے میں ملکی اور غیرملکی کھلاڑیوں کیلئے ہوٹلز تعمیر کئے جاتے جہاں سے بذریعہ شٹل انہیں سٹیڈیم لے جایا جاتا‘ اس اقدام سے جہاں شہریوں کی روزمرہ زندگی آرام دہ گزرتی وہیں پولیس اور جنریٹرز پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے عوام کو نجات ملتی۔ میرے ان دوستوں کو واپس لوٹا دیا۔ میں تاہنوز اس سوچ میں گم ہوں کہ ہماری فکر و نظر اور وطن کی عزت و وقار کا معیار اگر احساس کمتری ہے تو پھر:
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے