ہمارے قومی مسائل اور ان کا حل
پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر بلکہ زوال آمادہ ممالک اور معاشروں میں ہوتا ہے جہاں مسائل ان جہتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان مسائل کو پیدا کرنے والے گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ حد یہ ہے کہ ان میں سے کچھ کے بارے میں بات بھی نہیں کی جاسکتی۔ اندریں حالات، ملک ہر طرح کے مسائل کی دلدل میں پھنستا ہی چلا جارہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت کئی بڑے ادارے اور کچھ دوست ممالک ہمیں اقتصادی حوالے سے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہماری مدد تو کر دیتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ہمارے تمام مسائل کو مکمل طور پر حل نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا ہم خود اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں؟ اور کیا ہمارے پاس وہ اہلیت ہے جو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے؟
اگر بغیر لگی لپٹی رکھے بات کی جائے تو ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ مجموعی طور پر نہ تو ہم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل ریاست سے بری طرح مایوس ہوتی جارہی ہے اور مختلف واقعات کے ذریعے اس مایوسی کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک اظہار چند روز پہلے اس وقت منظر عام پر آیا جب اٹلی کے جنوبی علاقے میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے دیگر ممالک کے باشندوں کے علاوہ کم از کم دو پاکستانی بھی جاں بحق ہوگئے۔ ان دو پاکستانیوں میں سے ایک شاہدہ رضا بھی تھیں جو ہاکی اور فٹ بال کے کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ اس حادثے کے علاوہ لیبیا کے ساحلی شہر بن غازی کے قریب بھی سمندر میں کشتی غرقاب ہونے کے ایک واقعے میں تین پاکستانیوں کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی اطلاع ہے۔
یہ دونوں واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہرگز نہیں ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہر سال پیش آتے ہیں جن میں پاکستان یا دیگر ترقی پذیر ملکوں سے فرار ہو کر یورپ اور امریکا جانے کی خواہش رکھنے والے افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ممالک اور معاشروں سے کن وجوہ کی بنا پر بھاگتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس سلسلے میں اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں جو گروہ قومی وسائل پر قابض ہیں انھیں نہ تو ملک کی کوئی پروا ہے نہ معاشرے کی۔ ان میں سے ہر گروہ میں شامل افراد اس ملک میں صرف اس لیے رہتے یا وقت گزارتے ہیں کہ لوٹ مار کے لیے جو مواقع اور سہولیات انھیں یہاں میسر ہیں وہ کسی بھی اور ملک یا خطے میں نہیں مل سکتیں۔ یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب کا نظام کتنا شفاف اور مستحکم ہے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ وسائل لوٹنے والے گروہ یا افراد کبھی قانون کے کٹہرے میں آسکیں۔
ملک کے سیاسی نظام کی بات کی جائے تو وہ ایسا پیچیدہ ہے کہ اس کے تحت کسی درست بندے کے منتخب ہو کر کسی بڑے عہدے پر پہنچنے کے امکانات قریب قریب معدوم ہوچکے ہیں۔ بہت سے افراد عوام دوستی اور مذہب پسندی کے خوش نما نعروں کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور عوام ان پر اعتماد بھی کر لیتے ہیں لیکن عہدے ملتے ہی ان کی اصلیت سب پر واضح ہو جاتی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ تقریباً ساری سیاسی قیادت کی اصلیت سامنے آنے کے باوجود عوام کی غالب اکثریت انھی میں سے کسی نہ کسی سیاسی شعبدہ باز کو مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار بھاگتی رہتی ہے کہ جیسے قومی امراض کا حل واقعی اسی کے ہاتھ میں ہو۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تازہ ترین مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے جو مسلسل یہ دعوے کرتے رہے کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو ان لوگوں سے بہت بہتر ثابت ہوں گے جنھیں قوم کئی بار آزما چکی ہے۔ پونے چار سال کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران انھوں نے جو کچھ کیا وہ قوم کے سامنے ہے، اور اس کے باوجود ان کے چاہنے والے انھیں دودھ کا دھلا ہوا سمجھتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں خرابی واقعی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے لیکن کہیں سے تو ہم نے اصلاح کا کام شروع کرنا ہے۔ مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سنجیدگی اور دیانت داری سے غور کرنے والا ہر شخص مختلف زاویوں سے معاملات کو دیکھتا ہے۔ میں جس زاویے سے چیزوں سے کو دیکھتا ہوں اس حوالے سے مجھے تو یہی سوجھتا ہے کہ اگر ہمارے ہاں ایسے افراد قابلِ ذکر تعداد میں تعلیمی اداروں اور مساجد سے وابستہ ہو جائیں گے جو اپنی تمام تر توانائیاں ایک مثبت سماجی تبدیلی کے لیے وقف کرتے ہوئے نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیں تو ممکن ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں ہم اس قابل ہو جائیں کہ افراد کا ایک ایسا مجموعہ ہمیں قومی منظرنامے پر نظر آنے لگے جو حقیقتاً پاکستان کو ایک ایسے ملک اور معاشرے کے روپ میں ڈھالنے کے لیے کوشش کرے جہاں تمام شہری لسانی، نسلی، مذہبی، طبقاتی اور صنفی امتیازات سے بے فکر ہو کر باعزت زندگی جی سکیں۔