• news
  • image

قیام پاکستان سے اب تک


مسلمانان برصغیر نے انگریزوں اور ہندو¶ں سے آزادی کے لئے تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا بھرپور ساتھ دیا اور اﷲ پاک نے مسلمانان برصغیر کو 14اگست 1947ءکو آزادی جیسی نعمت سے نوازا۔ انگریزوں اور ہندو¶ں کے چلے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے لئے اسلام کے بنیادی فلسفے پر کاربند رہ کر حب الوطنی سے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرتے ۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی کہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناحؒ بہت وقت میں ہی رحلت فرماگئے۔پھربدقسمتی سے پاکستان کالے انگریزوں کے تسلط میں آگیا اوراس ملک کو لوٹنے اور عوام کو جبر و تسلط میں لانے کےلئے ملک کے سیاستدان‘ بیورو کریسی‘ صنعت کار‘ ادارے اور جاگیردار ایک جگہ جمع ہوگئے اور اس ملک کو منظم طریقے سے کمزور کرنے اور لوٹ مار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
قیام پاکستان کی دو دہائیوں بعد جاکر ملک کو متفقہ آئین نصیب ہوا لیکن اس وقت تک ملک کے وسائل و اختیارات پر ادارے، بیورو کریسی‘ سیاستدان‘ جاگیردار قابض ہوچکے تھے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس ملک میں تمام تر پالیسیاں صرف اور صرف مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے تشکیل دی جاتی ہیں۔ اداروں میں بیٹھے لوگوں نے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے ملک کے وسائل کو لوٹا اور اندرون ملک و بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔اس تمام کھیل میں بیورو کریسی نے اداروں میں بیٹھے لوگوں کا بھرپور ساتھ دیا اور نہ صرف اپنے لئے مراعات میں اضافہ کرایا بلکہ کرپشن و اختیارات کے ناجائز استعمال سے اندرون ملک اور بیرون ملک وسیع جائیدادیں بنائی گئیں۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت تک سیاستدان‘ صنعت کار اور جاگیردار لوٹ مار میں اس قدر ملوث نہیں ہوئے تھے لیکن 70ءکی دہائی کے بعد ملک کے مراعات یافتہ طبقے میں سیاستدان‘ صنعت کار اور جاگیردار بھی شامل ہوگئے۔ ملک نے ہمیشہ مارشل لاءادوار میں ترقی کی اور معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ ادارے مضبوط ہوئے۔ عوام کے مسائل حل ہوئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے زراعت و صنعت کے ساتھ ساتھ آبی وسائل سے مکمل استفادے کے ایسے کام کئے کہ آج 6دہائی بعد تک ملک ان کے منصوبوں سے مستفید ہورہا ہے اور ان کے دور کے بعد سے آج تک کوئی ڈیم نہیں بنا۔ جنرل یحیٰی خان نے ملکی تاریخ کا شفاف ترین الیکشن کرایا لیکن سیاستدانوں نے الیکشن نتائج تسلیم نہ کرکے ملک کو دولخت کردیا۔ جنرل ضیاءالحق نے امریکہ کی جنگ میں آلہ کار بن کر پاکستان کو اسلحہ‘ دہشت گردی اور منشیات کے ایسے گرداب میں پھنسادیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔جنرل مشرف نے ڈیفالٹر ہونے کے قریب ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ترین بلدیاتی نظام رائج کرکے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام بھی کرائے اور جب وہ اقتدار چھوڑ رہے تھے تو اس وقت ملکی خزانے میں 18ارب ڈالرز موجود تھے۔
سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف نیب کا ادارہ قائم کیا گیا اور ان کا ٹرائل چلتا آرہا ہے جس کے نتائج سے بھی پوری قوم اچھی طرح واقف ہے ۔ اداروں میں بیٹھے لوگ ویسے ہی احتساب سے مستثنٰی رہے ہیں اسی لئے ان کا کبھی ٹرائل نہیں ہوسکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا کوئی امکان موجود ہے۔ اسی وجہ سے پھر جاگیرداروں نے بھی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی۔ ہر جاگیردار اپنے زیر اثر علاقے میں مقامی طور پر من چاہے فیصلوں میں آزاد ہوچکا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے پٹوار خانے اور تھانے پر ان بااثر طبقات کا مکمل قبضہ رہتا ہے۔صنعت کاروں نے بینکوں سے بھاری قرضے لیکر ملک کے وسائل لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا۔ صنعت کار اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر قرض معاف کرالیتا ہے۔ بینکوں میں عوام کا پیسہ ہے اور صنعت کار منظم طریقے سے عوامی پیسہ معاف کرالیتے ہیں۔اداروں میں بیٹھے اعلٰی عہدیداران‘ بیورو کریسی‘ سیاستدان‘ جاگیردار اور صنعت کار جب چاہیں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ان کی اولادیں دوسرے ممالک سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان میں یہ تمام طبقات کسی بھی قسم کے نہ تو قانون کے پابند نظر آتے ہیں اور نہ ہی ملک کی بدتر معاشی حالت سے ان کے معیار زندگی میں کوئی فرق نظر آتا ہے۔ اس مراعات یافتہ طبقے کا ملک کے تمام تر اختیارات اور وسائل پر مکمل قبضہ ہے۔ اس طبقے کو آٹے‘ دال اور چینی کی قیمت تک کا علم نہیں اور نہ ہی انہیں اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ غریب خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوچکا ہے بلکہ ان کا مفاد صرف اسی میں ہے کہ ان کی مراعات‘ اختیارات اور معیار زندگی کے بارے میں پاکستان میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر پائے جس سے اس مراعات یافتہ طبقے کو دھچکا پہنچے۔ملک کا آئین تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی یقین دہانی کراتا ہے لیکن عملی طور پر ملک بھر میں کہیں بھی‘ کسی بھی سطح پر برابری کا کوئی ایک پہلو بھی نظر نہیں آتا۔ صرف اﷲ کے گھر میں نماز کی ادائیگی میں ایک ساتھ کھڑے ہونے یا قبر کی ایک برابر زمین کے‘ اس معاشرے میں کہیں بھی مساوی حقوق اب ناممکن ہیں۔ایک 17گریڈ کے اسکول ٹیچر کو حکومت کی جانب سے سائیکل تک نہیں دی جاتی لیکن افسر شاہی میں 17گریڈ والے کو گاڑی‘ پیٹرول اور نوکر چاکر کی سہولتیںملتی ہیں۔ جس معاشرے میں استاد کو عزت و وقار نہیں دیا جاتا اور انصاف کے ایسے پیمانے ہوتے ہیں‘ وہ قومیں ہر لحاظ سے تباہی کی جانب ہی جاتی ہیں۔ملک میں جان بوجھ کر ٹیکس کا ایسا نظام رائج کیا گیا ہے کہ ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے جس سے بچنے کے لئے افسرشاہی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور ٹیکس محکمے کے افسران ذاتی جیب بھرنے کے بعد لوگوں کو ریلیف دیتے ہیں جس سے قومی خزانے میں اس قدر ٹیکس جمع نہیں ہوتا جس سے ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہو۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح کم کرکے ٹیکس قوانین میں نرمی لائی جائے تاکہ عام آدمی خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے بخوشی انتہائی مناسب ٹیکس کی رضاکارانہ ادائیگی کرے اور ایسا تب ممکن ہے جب مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کے بجائے ملکی مفاد کے لئے فیصلے ہوں گے۔
اس مراعات یافتہ طبقے سے نجات کے لئے ملک کا انتخابی نظام‘ عدالتی نظام بدلنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور کیا جائے۔ اب تک جس کسی نے بھی قرض معاف کرائے ہیں ان کی فہرستیں میڈیا میں شائع ہونی چاہئیں اور قرض معافی پر پابندی لگنی چاہئے۔ 17گریڈ اور اس کے مساوی عہدے پر پہنچنے والے شخص کی پوری فیملی کے اثاثوں کی تفصیل لیکر مستقبل میں ان اثاثوں کی مکمل نگرانی کا مکینزم ہونا چاہئے اور اب تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئی بھی چیز مشکل نہیں رہی‘ صرف خلوص نیت کا فقدان ہے۔ آمدن سے زائد اثاثے خریدنے والے تمام سرکاری ملازمین سے فوری طور جواب طلبی اور عدم اطمینان پر سخت سزا¶ں کا طریقہ کار رائج ہونا چاہئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن