اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ ، جس قانون کو آئینی کہا اب غیر قانونی کیسے قراردیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق کیس میں جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے پہلے جس قانون کو آئینی قرار دیا اب اسے غیرآئینی کیسے قرار دے؟۔ سپریم کورٹ میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمشن نے رپورٹ تیار کرلی ہے لیکن تکنیکی غلطی کی وجہ سے جمع نہیں ہوسکی۔ نادرا نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے استعمال کے حوالے رپوٹ جمع کرا دی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ نادرا کے مطابق الیکشن کمیشن معاہدہ کرے تو ایک سال میں آئی ووٹنگ کا سسٹم بنا سکتے ہیں، ماضی میں بھی نادرا نے ایک سال کا وقت مانگا تھا، عدالت کے کہنے پر چھ ماہ میں سسٹم بنا، سال 2017 میں ہونے والے پائلٹ پراجیکٹ پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، الیکشن کمیشن نے اب تک دوبارہ کوئی پائلٹ پراجیکٹ نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمان نے 2017 میں الیکشن ایکٹ بنایا، سمندر پار پاکستانیوں کے حق سے متعلق الیکشن ایکٹ کی سیکشن 94 واضح ہے، سپریم کورٹ نے 2018 میں سیکشن 94 کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا، سال 2021 میں قانون کو مزید بہتر کیا گیا، 2022 میں پارلیمنٹ واپس پرانی سطح پر لے آئی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فریقین کے جواب آ جائیں تو عملدرآمد کا جائزہ بھی لیں گے۔ جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ قانون کو اصل شکل میں بحال نہیں کرسکتی۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے رپورٹ جمع ہونے کے بعد معاملے پر سماعت کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن تارکین وطن کے ووٹ کیلئے اقدامات کا جامع تحریری جواب جمع کرائے۔ سپریم کورٹ نے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے قانون میں ترمیم آئینی طور پر کیسے درست نہیں؟۔ عدالت عظمیٰ نے عمران خان اور شیخ رشید کو جواب جمع کرانے کا وقت دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی استدعا پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔