ڈالر کی اڑان، معیشت بے حال
جمعرات کے روز امریکی ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قدر میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا اس نے کرنسی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک ہی دن میں ڈالر کی انٹر بینک قدر میں تقریباً 19 روپے کا اضافہ ہوا جس سے ڈالر 285روپے سے زائد کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اسی طرح اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 15روپے کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس سے ڈالر کی قیمت فروخت 273سے بڑھ کر 288روپے کی سطح پر جاپہنچی۔ کرنسی مارکیٹ کے ماہرین روپے کی قدر میں کمی کو آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال بہت افسوس ناک ہے کہ ملکی کرنسی کی قدر مسلسل گرتی جارہی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ لوگ روز اپنے بیانات اور تقریروں میں عوام کو بتایا کرتے تھے کہ ہمیں حکومت ملتے ہی سارے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن تقریباً گیارہ مہینے میں مسائل پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اسی دوران ایک طرف ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے تو دوسری جانب ڈالر کی قدر بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا ایسا سیلاب آیا جس کے سامنے معیشت بے حال ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سنگین صورتحال میں حکومت کی طرف سے کوئی مثبت پالیسی تو کیا سامنے آنی ہے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کر کے عوام کے مسائل مزید بڑھائے جارہے ہیں۔ ادھر، سٹیٹ بینک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے کہنے پر سٹاف لیول معاہدے سے قبل شرح سود 3 فیصد بڑھانے کا اعلان کر دیا جس کے بعد ملک میں شرح سود 20 فیصد پر پہنچ گئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ افراطِ زر مزید بڑھنے کے امکانات بھی واضح ہیں۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں اور افراد کو تو شاید اس صورتحال سے کوئی فرق نہ پڑے لیکن عام آدمی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ حکومت اگر مسائل کو قابو نہیں کرسکتی تو اسے فوری طور پر معاملات نگران حکومت کے سپرد کر کے عام انتخابات کا اعلان کردینا چاہیے۔