عمران خان کی ایک ہی دن عام انتخابات پر رضامندی
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کے بعد پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ کا تعین کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے گورنر خیبر پی کے کو بھی مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے جس میں انہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کیلئے تاریخ مقرر کرنے کا کہا گیا ہے۔ گورنر خیبر پی کے غلام علی کی جانب سے پہلے ہی عندیہ دیا جا چکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کہا تو وہ خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کیلئے تاریخ کا تعین کردینگے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے صدر مملکت کو 30 اپریل سے سات مئی کے دوران کسی دن کا تعین کرنے کی تجویز بھجوائی گئی تھی اور ترجیحاً اتوار کا دن مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی اور کہا گیاتھا کہ تاریخ کے تعین کے بعد الیکشن کمیشن پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انتظامات کے معاملہ میں اپنے آئینی اور قانونی فرائض ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اب جلد انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائیگا جو 54 روز پر محیط ہوگا۔ گزشتہ روز صدر مملکت نے گورنر ہائوس لاہور میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان سے ملاقات بھی کی جس کے دوران دونوں رہنمائوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ملک کی بہتری آئین اور قانون کے مطابق چلنے میں ہے۔ صدر عارف علوی نے دوران ملاقات تسلیم کیا کہ پنجاب اسمبلی کے معاملہ میں گورنر پنجاب کے اقدامات آئین کیمطابق تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھی اس بات کی توثیق کی ہے۔ صدر نے کہا کہ موجودہ مسائل عارضی ہیں‘ پاکستان کا مستقبل روشن ہوگا۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے ایک ہی بار تمام اسمبلیوں کے عام انتخابات پر رضامندی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ہی دن عام انتخابات ہو جائیں تو اس سے پیسے کی بچت ہو گی۔ انہوں نے گزشتہ روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انکی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں۔ وہ تو بات کرنے کو تیار ہیں مگر اب کوئی ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ لگتا ہے آرمی چیف انہیں اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم کے امپائرز کے ساتھ بھی وہ الیکشن جیت جائیں گے۔ انکے بقول روس مخالف تقریر پر سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ سے اب تک ملک تسلسل کے ساتھ سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہے۔ عمران خان نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد بلیم گیم والی جس جارحانہ سیاست کا آغاز کیا اور بطور خاص ریاستی اداروں بشمول افواج پاکستان اور عدلیہ کے ذمہ داران کو ٹارگٹ کرکے سیاسی انتشار کی فضا کو فروغ دیا‘ اس سے رواداری کی سیاست ایک دوسرے کے ساتھ نفرت و حقارت اور ذاتی انتقام کی سیاست میں تبدیل ہو گئی۔ اس صورتحال میں جہاں ہمارے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملا وہیں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی عائد کردہ کڑی شرائط سے بھی پاکستان، اسکے حکمرانوں اور عوام کو انتہائی مشکل اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج ملک کے اقتصادی حالات‘ قومی معیشت کی بدحالی اور مہنگائی کے تسلسل کے ساتھ جھکڑ چلنے سے جہاں ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات لاحق ہوئے ہیں‘ وہیں عام آدمی عملاً زندہ درگور ہوگیا ہے۔ بے شک عمران خان کے دور حکومت میں بھی عوام کیلئے کوئی من و سلویٰ نہیں اتر رہا تھا اور عوام کو مہنگائی‘ بے روزگاری اور بدامنی کا مسلسل سامنا تھا نتیجتاً عوام بھی پی ٹی آئی حکومت سے بدظن ہوتے نظر آرہے تھے مگر حکومت مخالف پی ڈی ایم اور اس سے باہر اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی قیادتوں کو اپنے اقتدار کی صورت میں ملک کو مشکل اقتصادی اور مالی حالات سے نکالنے اور مہنگائی کے مارے عوام کو فوری ریلیف دینے کا زعم پیدا ہوا اور انہوں نے عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر عوام پر ٹوٹی ہوئی افتاد کی ذمہ داری اپنے گلے ڈال لی۔
اب عمران خان کے مخالفین کی حکومت قائم ہوئے گیارہ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کیلئے اتحادیوں کی حکومت نے جو پاپڑے بیلے ہیں اسکے نتیجہ میں ڈالر بھی بے قابو ہوا اور مہنگائی کے سونامیوں نے بھی راندۂ درگاہ عوام کا مزید حشر نشر کر دیا۔ اسی عوامی غیض و غضب کی بنیاد پر اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو پے در پے کامیابی حاصل ہونے لگی تو حکمران اتحاد کو فکر لاحق ہوئی کہ ان حالات میں انہیں عام انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑیگا۔ عمران خان نے اسی دوران پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں تحلیل کراکے حکمران اتحادی قیادتوں کیلئے مزید مشکلات پیدا کر دیں۔
بے شک ملک کے بدترین اقتصادی حالات اور بدحال معیشت کی بنیاد پر اس وقت مختصر وقفے کے ساتھ اسمبلیوں کے باربار انتخابات قومی خزانے پر مزید بوجھ بنیں گے چنانچہ اسی کی آڑ لے کر حکمران اتحاد نے متذکرہ اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات کیلئے آئینی تقاضا پورا کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی اور حکومتی انتظامی مشینری کی جانب سے مطلوبہ وسائل دستیاب نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے بھی 90 دن کے اندر انتخابات کے معاملہ میں ہاتھ کھڑے کر دیئے جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس معاملہ کا اپنے ازخود اختیار کے تحت نوٹس لیا اور اسکی سماعت کیلئے عدالت عظمیٰ کا 9 رکنی بنچ تشکیل دے دیا تاہم اس بنچ کے دو فاضل ارکان کی جانب سے کیس کی سماعت کے معاملہ میں اختلاف رائے سامنے آیا جبکہ بنچ کے دوسرے دو فاضل ارکان پر حکومت اور وکلاء تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تو فاضل چیف جسٹس نے ان چاروں فاضل ججوں کو بنچ سے علیحدہ کرکے باقیماندہ پانچ ججوں پر مشتمل بنچ کے روبرو کیس کی سماعت کی اور حکومت اور الیکشن کمیشن کو متذکرہ دونوں اسمبلیوں کے 90 روز کے اندر اندر انتخابات کیلئے آئینی تقاضے پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی جس پر طوعاً و کرہاً حکومت کو اقدامات اٹھانا پڑے ہیں اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا تعین ہو چکا ہے جبکہ یہ سطور شائع ہونے تک خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کیلئے بھی تاریخ کے تعین کا امکان ہے تاہم اب عمران خان کی جانب سے ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد پر رضامندی سامنے آئی ہے تو اس پر حکومتی حلقوں کی جانب سے سنجیدہ غور وفکر بھی لازمی امر ہوگا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ عمران خان ایک ہی دن تمام اسمبلیوں کے انتخابات پر سنجیدہ ہیں تو اس پر بات ہو سکتی ہے تاہم اس کیلئے انہیں سیاسی قوتوں سے بات کرنا ہوگی۔ ایک ہی دن تمام انتخابات کیلئے عمران خان کی آمادگی پہلے آئی ہوتی تو اب تک ملک میں جس انتشار کی صورتحال پیدا ہوئی ہے‘ اسکی شاید نوبت نہ آتی۔ اب بھی اگر ملک کی تمام سیاسی قیادتیں اور سٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر ملک کے خراب اقتصادی حالات کے تناظر میں ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کرلیں تو یہ جمہوریت کی بقاء و استحکام کیلئے بہتر فیصلہ ہوگا۔ اس اتفاق کی صورت میں 90 دن کے اندر انتخابات سے متعلق فیصلہ پر نظرثانی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑیگا۔ توقع یہی کی جانی چاہیے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر یا تمام اسمبلیوں کے ایک ہی دن انتخابات کی ہر دو صورتوں میں آئین کی پاسداری اور جمہوریت کی بقاء و استحکام کا معاملہ فریقین کے پیش نظر رہے گا۔