• news
  • image

چھن ۔ چھنگ

گزشتہ چند دنوں سے نئی، اہم اور تازہ ترین بہ افراط خبریں چکاچوندی اور برق رفتاری سے منظرِ عام پر آ رہی ہیں. اِن کی یکایک آمد سے دلوں میں یہ اندیشے اور وسوسے جنم لے رہے ہیں کہ نازک مزاج اور کمزور دل کہیں اپنے دل ہی ہارنا نہ شروع کر دیں. کراچی کے چڑیا گھر میں گولڈن ٹیمی نامی  ٹائیگر حرکتِ قلب بند ہونے سے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا. مانا کہ ا س کو نہ ہی نوے دن کے اندر صوبہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہونے یا التوا میں جانے کے کسی قضیے کا پتہ ہوگا، نہ ڈالر کی اڑان کی خبر ہوگی اور نہ ہی جنرل شعیب امجد کی گرفتاری اور رہائی کا علم ہوگا مگر سیانے کہتے ہیں کہ بڑوں کی سوچ اور ا س کے مثبت و منفی اثرات شعوری و لا شعوری طور پر عام انسانوں پر اور عام انسانوں کے پالتو جانوروں اور پرندوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں.
اثر انداز ہونے سے یاد آیا کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہونے والی پی ٹی آئی جب آٹا، چینی، گھی اور ادویات کے سکینڈلز میں لتھڑی ہوئی تھی، ڈالر پٹرول اور سونے کے ریٹ سن کی فصل کی طرح بڑھ رہے تھے، پنجاب میں بزدار حکومت کے کارنامے فنونِ لطیفہ کی طرح زبان زدِ عام و خاص تھے اور خارجہ میدان میں تنہائی دامن گیر ہو رہی تھی تو بھی شکستہ دل وزیراعظم انتہائی پر اعتماد انداز میں عَلیٰ الاِعلان اور ببانگ دہل نت نیا یوٹرن لیا کرتے تھے. تقریباً پونے چار سال حکومت کرنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ، عوام اور اپوزیشن نے انہیں نا تجربہ کاری کا جو سرٹیفکیٹ عطا کئے رکھا تھا، ا س کا انہوں نے گاہے بگاہے اور برملا اعتراف کرکے خوب فائدہ اٹھایا. مگر جب 30 ان کی تمام ناکام اکائیوں نے تبدیلی کی ہوا کے رخ کو یکسر ہی تبدیل کر دیا اور پارٹی کے تمام منتخب نمائندوں کو اپنی ہار سوا نیزے کے فاصلے پر نظر آتی محسوس ہوئی تو ا ن کو غیبی مدد میسر آ گئی۔
سنتے آئے تھے ،" مجاں مجاں دیاں بھیناں ہوندیاں نے" (بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں). ہم نے اِس ضرب المثل کو تب درست مانا جب اپریل 2022 میں عمران خان کی قابلِ رحم حالت میاں شہباز شریف سے شدید سیاسی مخاصمت کے باوجود دیکھی نہ گئی…. اشک شوئی اور دلجوئی کے لئے اپنی پارٹی کی مخالفت کے باوجود وہ مسیحا بن کر عدمِ اعتماد کا عصا تھامے خم ٹھونک کر نمودار ہوئے…... تھوڑا بہت 'تکلف' برتنے کے بعد چَشمِ زَدَن میں .. دونوں نے باہم نشستیں بدل لیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے اور صفر کے ہندسے کو چھوتی ہوئی شرحِ نمو کو بڑھاوا دینے میں جس پر تکیہ کئے رکھا وہ واحد ستون رئیل اسٹیٹ کا تھا. شائید ا س کا خیال تھا. 
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا
مگر اقوامِ عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی قوم نہ آئین شکنی کرکے اپنی منزل پر پڑاو ڈال سکی ہے اور نہ ہی کبھی رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے ا س کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے چشمے پھوٹ سکے ہیں. یہ بات ہم پاکستانیوں کی سمجھ میں آئے گی بھی نہیں کیونکہ شہر میں رہنے والا ہر چوتھا آدمی اِس شعبے سے وابستگی نہ سہی، دلچسپی ضرور رکھتا ہے. کسی اور کاروبار میں یا ملک کے اندر پیسہ لگانے کے عمل کو لوگ یکسر بھول گئے ہیں.
بات اصل موضوع کی بجائے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کی طرف ٹوسٹ کر گئی. نئی، اہم اور تازہ ترین خبروں کا تعلق افلاس زدہ طبقے کی دھلائی سے ہے. بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 82 پیسے فی یونٹ مزید اضافے کی نوید سنا دی گئی ہے. ڈالر ایک اونچی اور لمبی اڑان بھر کر 285 روپے پر دندنا رہا ہے. کھلی منڈی میں اِس کی قیمت 288 روپے بتائی جا رہی ہے. سونا فی تولہ 2 لاکھ 8 ہزار روپے پر پھدک رہا ہے. آئی ایم ایف کے اشارہ ابرو پر شرحِ سود مزید 3 فیصد اضافے کے ساتھ 20 فیصد تک پہنچ کر بچی کھچی سرمایہ کاری کو گڈ بائی کہنے پر اکسا رہی ہے. افراطِ زر کی شرح 31.5 فیصد پر اپنے پھن پھیلائے محوِ رقص ہے. یہ تمام اعداد و شمار یکم اور 2 مارچ کے ہیں. 16 پہروں میں درج بالا ہندسوں کا ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا تمام تر سہرا میاں شہباز شریف اور ان کی مخلوط حکومت کے سر جاتا ہے. اپریل 2022 میں عمران خان کی ساکھ ناقابلِ تعریف گردانی جاتی تھی اور آج میاں شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے. ایسا لگ رہا ہے جیسے  بند مٹھی سے ریت کے ذرات تیزی کے ساتھ ہاتھ سے پھسلے جا رہے ہوں۔

شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان بہت سی قدریں مشترک ہیں. مثال کے طور پر دونوں کارزارِ سیاست سے کوسوں دور تھے. ایک کا تعلق کاروباری دنیا سے تھا اور دوسرا کھیل کے میدان سے سیاست کی پرخار وادی میں داخل ہوا، دونوں کو مخلوط حکومت کی شکل میں سربراہی ملی. دونوں بحیثیت مجموعی فوجی قیادت سے اور جزوی طور پر علامہ طاہر القادری کے ساتھ اچھے مراسم سے بھی بندھے رہے، دونوں شیخ رشید احمد اور گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ مختلف اوقات میں گرمجوشی اور سرد مہری کی کیفیت میں رہے، ایک اپریل 2022 تک تبدیلی کی لہریں گننے میں مگن رہا تو دوسرا نامساعد حالات کے باوجود عوام کی خدمت جاری رکھنے پر مصر اور پر عزم ہے، ایک ان گنت خواہشات رکھتا ہے تو دوسرا بے پناہ خواہشات دبائے بیٹھا ہے اور آئین کی من پسند تشریح کے لئے دونوں کے پاس جید آئینی ماہرین میسر ہیں. دو صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد دو تین کے تناسب سے آئینی مدت کے اندر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے حکم کے بعد وفاقی وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور وزیرِ داخلہ اِس فیصلے کو چار تین کا تناسب قرار دے کر اپنی حمایت میں استعمال کر رہے ہیں. جواب آں غزل کے طور پر پی ٹی آئی کے ایکسپرٹ پانچ چار حساب سے ا ن کا حساب برابر کرکے معنی خیز نظروں سے مسکرا رہے ہیں. یوں سب مل کر عوام کے علمِ ریاضی کو بہتر کرنے کے جتن کر رہے ہیں. حسبِ معمول فواد احمد حسین چوہدری تو کمال ہی کر گزرے ہیں. حکومتی ماہرین کی رائے پر ٹویٹ کرتے ہوئے مشورہ دے ڈالا ہے کہ ا ن (حکومتی آئینی ٹیم) کو دوبارہ لا لالج میں داخلہ لے لینا چاہیے. انہوں نے جب پہلے لا کالج میں داخلہ لیا ہوگا تو لا دو سال کا ہوا کرتا تھا. اب خیر سے چار یا پانچ سال کا ہو گیا ہے. اِن بیچاروں کے لئے عمر کے اِس حصے میں دوبارہ پڑھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پی ٹی آئی والوں کے لئے جیل کاٹنا. لہذا استدعا ہے کہ فواد چوہدری کو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دینا چاہیے…. بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے فیصلے سے عمران خان کو اپنی جیل بھرو تحریک سے گلو خلاصی نصیب ہو گئی جو ان کے گلے میں پھانس کا مقام حاصل کر چکی تھی. پوری پی ٹی آئی، الحمدللہ، اِس آزمائش سے بحفاظت سرخرو ہو گئی ہے۔
بغیر سی ایس ایس یا پی سی ایس کا امتحان پاس کئے، گریڈ 22 کے افسر ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے ہونہار سپوت محمد خان بھٹی کو ایران بارڈر پر بلوچستان پولیس نے گرفتار کر لیا ہے. خودداری کا تقاضا بھی یہی تھا کہ پنجاب یا سندھ پولیس کو گرفتاری کا کریڈٹ نہ دیا جاتا سو محمد خان بھٹی اپنے مقصد میں کامیاب و کامران ٹھہرے. اِس سے چوہدری پرویز الٰہی کو بھی یَک گونہ اطمینان میسر آیا ہوگا کیونکہ ماتحت پروری کی شہرت رکھنے والے چوہدری صاحب محمد خان بھٹی کی گرفتاری کے حوالے سے خاصے آزردہ تھے۔
کل ایک اچھی خبر بھی نادرا کی طرف سے منظرِ عام پر آئی ہے. ا س کے مطابق "نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے منفرد سروس 'اجازت آپ کی' متعارف کرا دی۔ نادرا کی منفرد سروس کے ذریعے ذاتی معلومات دینے یا نہ دینے کا مکمل اختیار اب شہریوں کے اپنے ہاتھ میں ہو گا، شناختی کارڈ کی تصدیق متعلقہ شہری کی رضامندی کے بعد کی جائے گی" چلیں نادرا کی وجہ سے ہی سہی بندہ و صاحب و محمود و ایاز ایک پیج پر تو آئے. دوسری طرف شوبز کے میدان میں کامیڈی تھیٹر کپل شرما شو کی وجہ سے بھارت جبکہ سیاسی کامیڈی میں پاکستان بدستور پہلے نمبر پر ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن