• news

اتوار، 12 شعبان المعظم،  1444ھ، 5  مارچ  2023ء

پی ٹی آئی امریکہ کے رہنمائوں کی 2 ایوان نمائندگان کے ارکان سے ملاقات
امریکہ میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے 2 امریکی  ایوان نمائندگان کے نمائندوں سے گزشتہ روز ملاقات کرکے انہیں پی ٹی آئی کی طرف راضی کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ جناب ہم آپ کے دشمن نہیں۔ اب تو ہمارے قائد عمران خان بھی آپ سے دوستی چاہتے ہیں۔ جو ہوا سو ہوا‘ اب نئے سرے سے پیار و محبت کی باتیں کرتے ہیں۔ واقعی سیاسی ڈرامہ بازی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہوتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں امریکہ کے بعد خان صاحب فوج اور اسٹیبشمنٹ کی جس طرح منتیں کر رہے ہیں کہ 
’’مان‘‘ بھی جائو صنم تم کو میری قسم
ایسے لمحے جو بیت گئے تو آئیں گے پھر کہاں
مگر شاید اب یہ دونوں ان کی کمال کی اہانت آمیز مخالفانہ مہم اور بیان بازی کو اتنی آسانی سے فراموش کرنے پر تیار نہیں۔ اس لئے ان دونوں کی طرف سے کوئی جواب ان کی الزام تراشی کے حوالے سے نہیں دیا جا رہا۔ جس پر لگتا ہے خان صاحب خاصے تلملا رہے ہیں۔وہ ابھی تک ’’نرگسیت‘‘ یعنی اپنی ذات کے حصار سے باہر کسی کو دیکھنے یا ماننے کو تیار نہیں۔ جب تک یہ مسئلہ رہے گا‘ ان کے روٹھے رانجھے یا سیاں راضی نہیں ہونگے۔ اب تو پی آئی کے قائد گزشتہ روز باقاعدہ رونے رلانے اور معافی تلافی پر اتر آئے ہیں۔ کیا معلوم اس طرح ان کے ناراض رانجھوں کے دل میں نرمی پیدا ہو جائے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا تو پتہ نہیں مگر عوام ان کے اس لہجے اور انداز تقریر پر خاصے حیران ہیں کہ کہاں عمران خان کو استقامت کا کوہ گراں بنا کر پیش کیا جاتا تھا‘ کہاں وہ ریگ رواں ثابت ہو رہے ہیں۔ صرف 10 ماہ میں ان سے اقتدار کی جدائی نہیں سہی جا رہی اور وہ ان سب سے پھر راہ رسم چاہتے ہیں جن پر تختہ الٹنے کا الزام دیتے پھرتے تھے۔
٭٭……٭٭
بہاولپور میں ڈاکوئوں نے آٹے کے سٹال پر آنے والوں کو لوٹ لیا
شاید ایسے ہی موقع کیلئے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی کہاوت کہی جاتی ہے۔ سستا آٹا لینے کیلئے پیسے والے لوگ تو آنے سے رہے۔ یہی بے چارے غریب غرباء ہی آتے ہیں جو بازار سے آٹا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اب وہ بے چارے یہاں بھی محفوظ نہیں۔ ڈاکوئوں نے یہاں بھی ان کو تاک لیا ہے۔ اب یہ بے چارے غریب غرباء جائیں تو جائیں کہاں۔ یہاں قدم قدم پر ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہاولپور میں ڈاکوئوں کو ذرہ بھر بھی ترس نہیں آیا۔ ان بے چارے لائن میں کھڑے لوگوں پر جن کے پاس وہی چند سو روپے ہونگے جو وہ آٹے کا تھیلا خریدنے کیلئے گھر سے لئے تھے۔ کیا معلوم کتنے بے چاروں نے اڑوس پڑوس سے ادھار رقم لی ہوگی۔ اب وہ بے جب خالی ہاتھ گھر جائیں گے تو وہاں کیاکہرام مچا ہوگا۔ اسی خیال کی وجہ سے لائن میں لگے ایک جواں ہمت بزرگ نے مزاحمت کی کوشش کی تو ان ظالم ڈاکوئوں نے انہیں زودوکوب کرکے زخمی کر دیا۔ سب لوگوں کو لوٹنے کے بعد ڈاکوئوں نے سٹال میں جمع کیش بھی چھین لیا اور بھاگ گئے۔ بہاولپور سبزی منڈی انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ مخیر حضرات کے تعاون سے سبزی منڈی میں لکھ پتی آڑھتی اور دکاندار ہوتے ہیں‘ ان سے کہہ کر لٹنے والے غریبوں کو آٹا مفت فراہم کرتے تاکہ ان کے گھر والے بھی چند روز روکھی سوکھی کھا لیتے۔ ان ڈاکوئوں کو بھی یہ پیسے ہضم نہیں ہونگے۔ غریبوں کی بددعائیں انہیں لے ڈوبیں گی۔ یہ سب جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اگر ڈاکہ ہی مارنا تھا تو امراء کے ہاں مارتے۔ یہ غریبوں کو لوٹنا کونسی جواں مردی ہے۔

٭٭……٭٭
سعودی عرب میں ایک کلو ٹڈی 450ریال کی ہو گئی
صحرائی علاقوں میں پائی جانے والی ٹڈیاں وہاںکے باشندوں کی مرغوب غذا ہے۔ عرب ہو یا افریقہ یا پھر ایشیا‘ ریگستانی علاقوں میں رہنے والے ان صحت مند پروٹین سے لبریز ٹڈیوں کو ذوق و شوق سے پکا کر یا تل کر کھاتے ہیں۔ ہمارے چولستان اور تھر کے صحرائی باشندے بھی بھون کر یا تل کر ان ٹڈیوں کو کھاتے ہیں مگر ابھی تک ان کی قیمتیں کنٹرول میں ہیں کیونکہ باقی لوگوں کو ٹڈیاں کھانے سے کوئی خاص رغبت نہیں۔ سعودی عرب مالدار ملک ہے۔ وہاں تیل کی بدولت شہری ہوں یا دیہاتی‘ سب کے پاس پیسہ بہت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بدوئوں کی اس من پسند ڈش کی قیمت اس وقت بلند ترین سطح پر یعنی 450 ریال فی کلو ہو گئی ہے۔ یہ تو واقعی سونے کے بھائو بک رہی ہیں۔ شاید سونا وہاں ان ٹڈیوں سے بھی سستا بکتا ہو۔ خیر ہمیں کیافرق پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے‘ اس سے تو لگتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمارے غریب غرباء بھی جال بچھا کر ٹڈیوں‘ چڑیوں‘ کا ملک بھر سے خاتمہ کر دیں گے۔ اس طرح جس طرح سڑکوں پر قدم قدم پر نئے ہوٹل والوں نے آس پاس کی آبادیوں کے گدھوں اور سگ آوارہ کا کر دیا ہے‘ کیا پتہ بھوک اور غربت کے ستائے لوگ ازخود مفتی بن کر باقی چرند و پرند‘ حشرارت الارض کے حلال ہونے پر اجماع کر لیں۔ یوں ملک بھر سے سوائے انسانوں کے ہر جاندار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انسانوں کو اس لئے چھوڑ دیا جائے گا کہ ابھی تک کوئی شخص آدم خور بننا نہیں چاہتا۔ ہاں البتہ حرام خور بننے کو ہم بُرا نہیں سمجھتے۔
٭٭……٭٭
لاہور قلندر کے کھلاڑیوں نے میچ کے بعد گرائونڈ کی صفائی کی
شکر ہے غیرملکی کھلاڑیوں کی دیکھا دیکھی ہمارے کھلاڑیوں اور آفیشل میں بھی تحریک پیدا ہوئی ہے کہ وہ کرکٹ میچ ختم ہونے کے بعد لوگوں کی طرف سے بد تہذیبی کے ساتھ پھینکا گیا کچرا سمیٹ کر کوڑے دانوں میں ڈالیں اور اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دیں۔ پاکستان سپر لیگ کے حالیہ مقابلوں میں بھی ہمارے کرکٹ کے شائقین حسب معمول ’’جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے‘‘ میچ دیکھتے ہوئے جانوروں کی طرح منہ چلاتے ہیں اور کھانے پینے کے بعد جہاں بیٹھتے ہیں‘ وہاں پر کچرا پھینک کر اپنے بے شعور ہونے کا عمدہ ثبوت دیتے ہیں۔ میچ کے بعد تو کرکٹ گرائونڈ سچ کہیں تو کچرا کنڈی بنا نظر آتا ہے۔ شائقین کرکٹ سے یہ نہیں ہوتا کہ جس طرح شاپر بیگز میں کھانے پینے کی اشیاء لاتے ہیں‘ کھانے پینے کے بعد وہ اسی شاپر میں  بچ جانے والا کچرا کیوں نہیں ڈال کر کوڑے دان میں ڈالتے۔ جانوروں کی طرح ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں۔ پہلے بھی غیرملکی کھلاڑیوں نے اپنے اردگرد پھیلا ہوا کچرا جمع کرکے اچھی مثال قائم کی‘ اب لاہور قلندر کے کھلاڑیوں نے گزشتہ روز کرکٹ گرائونڈ میں پھیلا کچرا صاف کرنے کی جو مثال قائم کی ہے‘ وہ قابل تعریف ہے۔ ہمارے شائقین کو چاہئے کہ وہ اپنے من پسند کھلاڑیوں سے بھی سبق حاصل کریں اور کچرا نہ پھیلائیں بلکہ کچرا سمیٹنے کی عادت اپنائیں۔ یہ ایک اچھے اور باشعور شہری کی نشانی ہے جوہم میں کم پائی جاتی ہے۔ اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر انسانوں اور جانوروں میں کوئی نہ کوئی فرق تو ہونا چاہئے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کی صفائی انسانوں اور جانوروں کے فرق کو واضح کرتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن