• news

عمران بات چیت کے قابل نہیں ، الیکشن مردم شماری کے بعد ہونے چاہئیں : فضل الرحمن 

اسلام آباد (نامہ نگار) پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران خان بات چیت کے قابل نہیں۔ الیکشن مردم شماری کے بعد ہونے چاہئیں۔ اس وقت ملک میں مردم شماری جاری ہے۔ ملک میں بدامنی بھی ہے۔ بہت سے علاقوں میں ہم الیکشن مہم کیلئے نہیں جا سکیں گے۔ ملکی حالات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کے ازخود نوٹس لینے پر حیرت ہے۔ عدلیہ نے الیکشن کا شیڈول کیوں نہیں دیا۔ ہمارے نزدیک سپریم کورٹ کا فیصلہ 3‘ 2  سے نہیں 4‘ 3 سے آیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا ہے کہ  ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ ہمیشہ آئین و ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی صورتحال کی تصویر جو پیش کی جا رہی ہے، ہماری نظر میں تصویر اس سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نگران حکومتوں کو برقرار رکھنے کی خواہش نہیں ہے۔ کیا اسمبلیاں وزراء اعلیٰ نے توڑی ہیں یا ایک لیڈر کے حکم پر عمل کیا ہے۔ آئینی لحاظ سے ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہاکہ عمران خان کی ساڑھے3 سال کی حکومت نے ریاست کو کہاں پہنچا دیا ہے۔ ملک کو وہاں پہنچا دیا کہ غریب آدمی کو ریاست روٹی مہیا  نہیں کر سکتی۔ خواہش ہے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جائیں۔ ہم نے ملکی حالات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ علم میں آیا ہے ثاقب نثار اور فیض حمید اب بھی عمران خان کیلئے لابنگ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلی بار اداروں میں نظریاتی تقسیم دیکھی جا رہی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب باہر سے ڈوریں ہلائی جا رہی ہوں۔ ہمیں ضرور اس بات پر تعجب اور حیرت ہے کہ ہماری سپریم کورٹ نے ازنوٹس لیا کہ انتخابی شیڈول کیوں نہیں دیا جا رہا۔ آج کہہ رہے ہیں ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس لیے سوموٹو لے رہے ہیں لیکن اس وقت جب 2018ء میںپورا پاکستان اسلام آباد میں داخل ہو چکا تھا تو اس وقت آپ کو ان کی چیخ و پکار سنائی نہیں دی تھی۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ یہ کیسے کان ہیں کہ جہاں 15لاکھ عوام اسلام آباد میں ہیں تو آپ کو ان کی آواز تو نہیں سنائی دے رہی اور کہیں ہر ایک دو آدمی آ کر کھٹکھٹا دیں تو ان کی آہٹ آپ کو سمجھ میں آجاتی ہے اور آپ اس پر سوموٹو لے لیتے ہیں۔، کہتے ہیں 90دن کے اندر الیکشن کرانا ہے، یہی سپریم کورٹ تھی جس نے جنرل مشرف کو کہا تھا کہ تین سال کے اندر الیکشن کرانا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ہماری قیمتوں کا اتار چڑھائو اس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ کس طرح ہمارے اسٹیٹ بنک کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا گیا ہے اور وہ پاکستان کے کسی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے۔کیا ہماری فوج، پولیس میں اس وقت اتنی سکت ہے کہ وہ ہر پولنگ سٹیشن کے تحفظ کے لیے سکیورٹی مہیا کر سکے۔

ای پیپر-دی نیشن