• news

عورت مارچ پر پابندی 


ضلعی انتظامیہ لاہور نے 8 مارچ کو مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاج کے بعد عورت مارچ انتظامیہ کو ناصر باغ، ایوان اقبال، الحمرا اور مال روڈ پر مارچ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد عورت مارچ پر لگائی گئی پابندی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ لاہور کی ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر نے سکیورٹی خدشات، مارچ کے دوران متنازعہ پلے کارڈز اور نعروں اور اسی روز جماعت اسلامی کی خواتین کی طرف سے مال روڈ پر حیا مارچ کے شرکاءکے ساتھ تصادم کے خطرے کی وجہ سے عورت مارچ انتظامیہ کی درخواست مسترد کردی۔ خواتین کا عالمی دن منانے میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آڑ میں اسے کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ نہ بننے دیا جائے۔ دین اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں، بیوی، بہن اور بیٹی مثالی حقوق دیے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ نساءخواتین کے حقوق ہی سے متعلق ہے۔ اس طرح ہادیِ برحق نے خواتین کو وراثت میں حقوق دیے، معاشرے میں عزت دی، احترام عطا کیا جو یقینا دین اسلام کا طرہ¿ امتیاز ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی عورت ناانصافی، حق تلفی اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتی نظر آتی ہے۔ خواتین کے عالمی دن پر خواتین کے حقوق کی بات ضرور ہونی چاہیے۔ ان پر ہونے والے ظلم و ستم ،وراثت میں حصہ نہ ملنے اورکم عمری میں یا رضامندی کے خلاف ہونے والی شادی پر بات ہونی چاہیے۔ عورتوںمیں تعلیم کے فروغ پر بھی بات ہونی چاہیے اور ایسے دیگر بے شمار بنیادی مسائل پر بھی جن سے آج کل کی خواتین دوچار ہیں لیکن حقوق کا نام لے کر اگر مذہب مخالف نعرے لگاتے ہوئے اور متنازع پلے کارڈز اٹھا کر مغربی ممالک اور اداروں کے ایما پر پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملے کیے جائیں گے تو یہ کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ ایسے کسی بھی اجتماع کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس میں شرکاءملک کی نظریاتی اساس پر رکیک حملے کرنے کو آزادیِ اظہار قرار دیتے ہوں اور ایسے ہر بیرونی ایجنڈے کی بھرپور حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے جس کا مقصد معاشرے کو بے راہ روی کا شکار کرنا ہو۔

ای پیپر-دی نیشن