ای سی سی : سرکاری حج اخراجات پونے 12 لاکھ ، مردم شماری کیلئے 12 ارب گرانٹ منظور
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ اور ریونیو سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں حج 2023 پالیسی کی منظوری دی اور اور اس کے لئے 9 کروڑڈالر کا زرمبادلہ فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ پالیسی کے مطابق سال 2023 کے لیے پاکستان کے لیے مختص حج کوٹہ 1لاکھ 79ہزار 210 ہے جسے سرکاری اور پرائیویٹ حج سکیموں کے درمیان پچاس، پچاس فی صد کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔ سرکاری اور پرائیویٹ حج اسکیموں میں سے ہر ایک کو 50 فی صد کا کوٹہ سپانسر شپ سکیم کے لیے مختص کیا جائے گا۔ سال 2023 کے لیے، شمالی علاقے کے لیے عارضی حج پیکیج 11لاکھ 75ہزار روپے اور جنوبی علاقے کے لیے 11لاکھ65ہزار روپے کا ہو گا ، ای سی سی نیمنصوبہ بندی کمشن کے لئے 12ارب روپے کی تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹ کی بھی منظوری دی ،رقم ساتویں آبادی اور مکانات کی مردم شماری کے انعقاد کے لیے منطور کی گئی اور نیشنل پاورٹی گریجویشن پروگرام کے لیے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے لئے3ارب 24کروڑ روپے کی ضمنی گرانٹ منظور کر لی، ای سی سی نے سال 2023 کے لیے یوریا کھاد کی ضرورت پر وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی طرف سے پیش کردہ سمری کو موخر کر دی، ہدائت کی کہ تجویز میں ای سی سی کی جانب سے گیس کی تقسیم کے منصوبے پر شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کو شامل کیا جائے، ای سی سی نے سولر پینل اور الائیڈ ایکوپمنٹ مینوفیکچرنگ پالیسی 2023 پر وزارت صنعت و پیداوار کی طرف سے پیش کی گئی ایک اور سمری بھی موخر کر دی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے مشورے کو مدنظر رکھتے ہوئے مجوزہ پالیسی کا جائزہ لینے اور اس پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت کی ۔
علاوہ ازیں45 لاکھ پاسپورٹ کے اجراء سے اب تک 26 ارب روپے سے زائد قومی خزانے میں جمع ہو چکے ہیں۔یہ بات وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت پیر کو پاسپورٹ دفاتر کے قیام سے متعلق منعقد ہونے والے اجلاس میں بتائی گئی۔ اجلاس میں پاکستان کے باقی اضلاع میں نادرا کے تعاون سے پاسپورٹ پروسیسنگ کائونٹرز اور موبائل رجسٹر گاڑیوں کے قیام پر بھی غور کیا گیا تاکہ عام آبادی کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور خدمات کی فراہمی کے لیے دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جا سکے۔وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت محدود وسائل اور مالی چیلنجوں کے باوجود تمام شعبوں میں آبادی کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر رہی ہے۔