• news

”لیڈر“ میں کن اوصاف کا ہونا ضروری ہے؟


ملک کی لیڈرشپ ہی امورِ مملکت چلاتی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ ایک اچھے لیڈر کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے؟ چلیں، ہم آج اس پر بات بھی کرتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش بھی کہ ریاست پاکستان میں کیا اچھے اوصاف کی حامل لیڈرشپ موجود ہے؟
ہمارا ملک امن و امان، جرائم، معاشی اور سیاسی حوالے سے آج جس صورتحال سے دوچار ہے اور گئے دنوں، مہینوں اور سالوں سے اب تک ہم جس بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں۔ یقینا اس سارے پس منظر میں ہمیں اپنی وہ غیر سنجیدہ سیاسی لیڈرشپ نظر آتی ہے جو امورِمملکت چلانے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی، ایک اچھے لیڈر کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں جو ا±سے دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہے۔ شخصی کشش ایک ایسی خاصیت ہے جسے اکثر زیادہ ضروری سمجھ لیا جاتا ہے۔ تاہم درج ذیل اوصاف کو پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو شخصی کشش زیادہ آسانی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ فرائض اور اپنے کام کے حوالے سے حقائق سے باخبر رہنے والے لیڈر کو جتنی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، جو لیڈر اپنی ذمہ داریوں کی مکمل تفصیلات کا علم اور ادراک رکھتا ہو وہ اپنی جماعت، تنظیم یا پارٹی کیلئے زیادہ سود مند اور بہتر ثابت ہوتا ہے۔ لیڈرکی جونیئر قیادت کو اگر ایسا لگے کہ لیڈر ہر وقت ا±نکے دماغ پر سوار رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی نوٹس لیتا ہے تو سمجھ لیجیے ایسا لیڈر ایک فلاپ لیڈر ہے۔ جزئیات میں جائے بغیر اگر آپ اپنا کام کریں، اپنی لیڈرشپ کو نبھائیں تو سو فیصد آپ ایک بہترین لیڈر ثابت ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی لیڈر جھوٹ بولے، ڈرائنگ روم میں کچھ اور باہر کچھ اور کہے تو ایسا لیڈر اپنا اعتماد کھو دیتا ہے۔ اگر کوئی وعدہ کرتا ہے اور ا±سے پورا نہیں کرتا تو سب ا±س سے کتراتے اور دامن بچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی لیڈر اپنی جونیئر قیادت کے سامنے کوئی مو قف اختیار کرے لیکن خود ا س پر عمل نہ کرے تو ایسا لیڈر جماعت یا اپنی پارٹی میں اپنی ساری قدروقیمت کھو دیتا ہے۔بات کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ لیڈر بات کچھ کرے جبکہ عمل کچھ اور ہو تو کوئی بھی ا±س لیڈر پر اعتماد نہیں کرے گا۔ خود اس کی جماعت کے لوگ بھی آہستہ آہستہ ا±س کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیں گے۔ لیڈر کی حیثیت سے ا±س کی نجی اور عوامی زندگی کو قابل تقلید ہونا چاہیے۔ لیڈر خود کو ایسی مثال بنائے کہ ہر دیکھنے ولا ا±س کا گرویدہ ہو جائے۔ لیڈر میں فیصلہ کرنے کی زبردست و لامحدود اہلیت ہونی چاہیے۔ وہ جو بھی فیصلہ کرے اتنا اٹل اور پختہ ہو کہ کبھی ا±س سے پیچھے ہٹتا دکھائی نہ دے۔ انتہائی دباﺅ میں بھی ا±س کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر نہ ہو۔ مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا ا±سے خاص ڈھنگ اور ہنر آتا ہو۔لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی جماعت کی مو ثر قیادت کر سکے۔ کوئی لیڈر اگر معاملات میں قنوطیت پسند ہو گا ، منفی سوچ رکھے گا۔ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ ہر لیڈر اپنے مثبت پہلوﺅں پر اگر توجہ مرکوز رکھے تو ایک کامیاب لیڈر بن سکتا ہے۔ مقبول لیڈر کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔ لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے اہداف مقرر کرے جن کو حاصل کرتے ہوئے ا±س کی جماعت ایک خاص سمت میں پیش قدمی کرتی جائے۔ لیڈر کی سوچ وسیع ہونی چاہیے تاکہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اپنے اہداف کا تعین کر سکے۔ اس کی بدولت اس کی تنظیم یا جماعت درست سمت کی طرف قابلِ اطمینان رفتار سے نمو پا سکتی ہے۔
اب ایک نگاہ ایسی باتوں پر بھی ڈالتے ہیں جو کسی لیڈر میں نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم سب انسان ہیں، ایک انسان کی حیثیت سے ہم سب سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ تاہم کوئی بھی لیڈر کبھی اپنی جماعت میں اپنے رفقاءاور کارکنوں کے ساتھ کبھی آمرانہ رویہ اختیار نہ کرے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں نہ آئے۔ اپنے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھے۔ جماعت کے انتظامی امور اور معاملات پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز رکھے۔
یہ یاد رکھیے لیڈرشپ ایسی بلا کا نام ہے جس میں بہت زیادہ دھیان سے اور سوچ سمجھ کے چلنا پڑتا ہے۔لیڈرشپ مینجمنٹ کا ایک حصہ ہے جس میں یہ طے پاتا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں سے ”ابلاغ“ کیسے کرتے ہیں۔ آپ میں اگر قائدانہ اوصاف نہیں ہوں گے تو آپ آغاز میں ہی ناکام ہو جائیں گے۔ آپ میں اگر قائدانہ صلاحیتیں نہیں تو سمجھ لیجیے کہ مستقبل میں بھی یہ”صلاحیتیں“ آپ میں پیدا نہیں ہوں گی جس کا آپ کو نقصان ہو گا اور آپ لیڈر بننے سے محروم رہیں گے۔
اگر آپ کامیاب لیڈر بننا چاہتے ہیں تو آپ کو مثبت سوچ اور مثبت طرزِ عمل کا حامل ہونا چاہیے۔ اچھی بصیرت کا ہونا اور اپنے آپ پر اعتماد ایک کامیاب لیڈر کی نشانی ہے۔ لیڈر کو تعلیم یافتہ اور انصاف پسند ہونا چاہیے۔ کردار و عمل ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ا±س پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ ا±سے وفاداری، جانچ اور پرکھ کا بھی حامل ہونا چاہیے۔ وہ خودغرض نہ ہو، بہت حوصلہ رکھتا ہو۔ ا±س میں کچھ کر گزرنے کا جوش و ولولہ ہو۔ ا±س میں قوتِ فیصلہ اور بہت زیادہ قوتِ برداشت ہو۔ طرزِ عمل ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ ا±س کے گرویدہ ہوتے چلے جائیں۔
لیڈرشپ کے اصول کیا ہوتے ہیں، یہ ا±سے بخوبی معلوم ہونا چاہیے۔ وہ اپنی ظاہر و پوشیدہ کمزورویوں پر بھی نظر رکھے کہ ا±ن میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اپنے آپ کو بہتر اور ممتاز بنانے کے لیے وہ اپنے کردار و عمل کو مثالی بنائے تاکہ لوگ داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں۔ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنے کا طریقہ، سلیقہ اور ہنر آتا ہو۔ وہ مشاورت ضرور کرے لیکن فیصلہ ا±س کا اپنا ہو۔ جو فیصلہ کرے ا±س سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ کسی بھی کام کے نتائج کچھ بھی ہوں، ا±س کی پوری ذمہ داری قبول کرے۔ وہ لیڈرشپ کے تقاضوں کی تکمیل پورے اعتماد سے کرے۔ کن شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے، ا±س پر توجہ دے۔ اپنے رفقائے کار کو احترام اور عزت دے۔ اپنے احکامات کی بجاآوری کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ کسی کی اچھی انفرادی اور اجتماعی کارکردگی کی تعریف سب کے سامنے کرے۔ کارکن ملنے کے لیے آئیں تو اچھے انداز سے ا±ن کا خیر مقدم کرے۔ عزت و تکریم بخشے۔ کارکنوں کو یہ احساس دے کہ وہ سب ا±س کے لیے کتنے اہم ہیں۔
لیڈر یا سربراہ وہ ہوتا ہے جو ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جو ا±س کی ریاست، جماعت، ادارے، خاندان، گھر یا برادری و محلے پر مثبت اثرات ڈالتے ہوں۔ اقتدار کی خاطر لوگوں کو علاقائی اور خاندانی تعصب کی ترغیب دینے والا کوئی بھی شخص اچھا لیڈر نہیں ہوتا، نہ ہو سکتا ہے۔لیڈرجلسے، جلوسوں میں کبھی متنازع بات نہیں کرتا۔ نہ مخالفین کی رسوائی کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماں بہن کی گالیاں نہیں دیتا اور ہر ایک کے سوالوں کا جواب بڑے تحمل سے دیتا ہے۔ پاکستان میں آج کی لیڈرشپ کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ لوگ سیاسی لیڈران کے رویوں اور طرزِ عمل کے باعث ا±ن سے سخت بیزار نظر آتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری سیاست بدترین نہج پر پہنچ چکی ہے۔ گالی گلوچ اور سیاست میں الزام تراشی کے کلچر نے ہماری سیاست کو پراگندہ کر دیا ہے۔ دیکھنا ہو گا کون سیاست کے رموز کو سمجھتا ہے اور اچھی سیاست کرتا ہے۔
ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت سے سیاست میں تطہیر کا عمل شروع کرنا ہو گا تاکہ ملکی سیاست سے بے ہودہ اور گندی سیاست کا خاتمہ ہو جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم سیاست میں ایسا ہی ہوتے دیکھیں گے جو ہم گزشتہ ایک دہائی سے دیکھ رہے ہیں۔

سعد اختر

سعد اختر

ای پیپر-دی نیشن