عمران خان کی مفاہمانہ سوچ
محترمہ بےنظیر بھٹو جب 2007 میں پاکستان واپس آئیں تو انہوں نے مفاہمت کا سلوگن دیا تھا اور اس عنوان سے انہوں نے کتاب بھی لکھی تھی جو ان کی زندگی کی آخری کتاب ثابت ہوئی- ان کا خیال تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے لہٰذا ان حالات میں ریاست کو محاذ آرائی نہیں بلکہ مفاہمت کی ضرورت ہے- محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا تھا تا کہ جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھا جا سکے- اس وقت کے طاقتور حکمران جنرل پرویز مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو کی پیشکش کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا تھا اور ان کو شہید کرکے سیاسی منظر سے غائب کر دیا گیا - پاکستان کے مقبول ترین لیڈر عمران خان کی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے اپنے ایک خطاب میں یہ کہا ہے کہ وہ ہر اک سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں اور مفاہمت کے جذبے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں- یہاں تک کہ وہ اپنے مبینہ قاتلوں کو بھی معاف کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے ہیں- عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی سنگین سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ قومی اتحاد اور قومی مفاہمت پیدا کی جائے تاکہ پاکستان کو اس بحران سے باہر نکالا جاسکے البتہ انہوں نے اپنے پرانے موقف کو دہرایا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جنہوں نے ملک کی دولت لوٹی ہے اور اسے ملک سے باہر لے گئے- انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ وہ پاکستان کے موجودہ سپہ سالار سے ملاقات کے لیے تیار ہیں مگر ان کی طرف سے کوئی مثبت پیغام نہیں آرہا- عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے روس کے خلاف تقریر کی تھی جو کہ اس وقت کی حکومت کی خارجہ پالیسی کے برعکس تھی-عمران خان کے بیانات میں بعض اوقات تضاد بھی نظر آتا ہے - ایک جانب تو وہ نئے سپہ سالار سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سابق سپہ سالار کے کورٹ مارشل کی بات کر رہے ہیں-
جب عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک منظور کرکے اقتدار سے فارغ کیا گیا تو اس وقت انہوں نے کہا کہ یہ بیرونی سازش تھی جس میں امریکہ ملوث تھا مگر کچھ عرصے بعد ان کو احساس ہوا تو انھوں نے اپنے اس موقف کو تبدیل کر لیا اور یہ کہا کہ رجیم چینج میں امریکہ ملوث نہیں تھا اور یہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی سازش تھی جو سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے تیار کی تھی- عمران خان اس نوعیت کے یوٹرن کو سیاسی تدبر اور بصیرت کہتے ہیں-عمران خان نے زور دیا کہ پاکستان کو آئین اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی مختلف نوعیت کے بحرانوں سے باہر نکالا جا سکتا ہے-پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی لیڈر آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات تو کرتے ہیں مگر اس بنیادی اور سنہری اصول پر خود کم کم ہی عمل کرتے ہیں-جنرل (ر) ضیائالحق نے اپنے دور اقتدار میں ایک بار یہ بھی کہہ دیا کہ آئین بارہ صفحے کی ایک کتاب ہے جس کو وہ جب چاہیں پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں- جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک بار یہ کہا تھا کہ پاکستان کے آئین کی کیا حیثیت ہے اسے جب چاہوں کوڑے دان میں پھینک سکتا ہوں- 1973 کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کا بھی یہ تاریخی جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ پاکستان کا آئین کوئی چپلی کباب نہیں ہے جس سے لوگوں کے پیٹ بھر سکیں -سیاسی لیڈر عام طور پر آئین کے بارے میں آمروں کی طرح اظہار خیال نہیں کرتے اور محتاط رہتے ہیں البتہ ان کے رویوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات پر آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ پاپولر لیڈر ہیں اس لئے آئین اور قانون ان پر لاگو نہیں ہو سکتے-
عمران خان اپنے بیانات میں مستقبل کے ویژن کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں البتہ اپنے اس خطاب میں انہوں نے کچھ اہم باتیں کی ہیں اور یہ کہا ہے کہ وہ عدلیہ اور دوسرے ریاستی اداروں میں اصلاحات کریں گے- ٹیکس نیٹ کو بڑھائیں گے اخراجات کم کریں گے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کریں گے تاکہ پاکستان کی جان مستقل طور پر آئی ایم ایف کے شکنجے سے چھوٹ جائے-عمران خان نے تسلیم کیا کہ گذشتہ انتخابات میں کئی لوگوں نے غلط ٹکٹ حاصل کر لیے تھے اور پیسے لےکر ٹکٹ دینے کی بھی شکایات ان کو ملی تھیں- اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹوں کے فیصلے خود کریں گے-عمران خان کا مفاہمت پر مبنی جذبہ قابل ستائش ہے البتہ ان کو پاپولر لیڈر کے طور پر پاکستان کے قومی اور عوامی مفاد کی خاطر اپنے دل کو مزید بڑا کرنا ہوگا اور ان رکاوٹوں کو بھی ختم کرنا ہوگا جو مفاہمت کے راستے میں حائل ہو چکی ہیں-اس وقت پاکستان کی جتنی بھی سیاسی قوتیں ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر ہی قومی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے-جب وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے سے بیٹھ کر بات کرنے سے انکار کرتے ہیں اور مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی بات کر رہے ہیں-ان کو علم ہے کہ اگر وہ انتخابات جیت بھی جائیں تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر حکومت نہیں چلا سکیں گے - عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کی کشیدگی ختم کرنے کے خواہاں ہیں مگر وہ اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید سے بھی گریز نہیں کرتے- پیمرا نے ان کے لائیو اور ریکارڈ بیانات الیکٹرانک میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے کیونکہ ان کے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں- عمران خان اکنامک ٹیم تیار کریں جو پاکستان کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کے لیے اکنامک پلان تیار کرے - عوام الزام تراشی کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے حکمران اور اپوزیشن لیڈرز ان کے معاشی مسائل اور گورننس پر توجہ دیں تاکہ ان کی روزمرہ کی مشکلات ختم ہو سکیں اور وہ پر سکون طور پر اپنی زندگیاں گزار سکیں - پاکستان اور عوام دوست افراد کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ انتخابات کے بعد بھی جیتنے اور ہارنے والی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی جاری رہے گی لہٰذاقومی اور عوامی مفاد کا تقاضا ہے کہ دو سال کی عبوری قومی حکومت تشکیل دی جائے جس میں تمام سیاسی مذہبی جماعتوں اور ٹیکنوکریٹس کی نمائندگی ہو- عبوری قومی حکومت احتساب ادارہ جاتی انتخابی اور معاشی اصلاحات کا میثاق تیار کرے آئندہ 20 سال تک ریاست کو اس میثاق کی روشنی میں چلایا جائے تاکہ ریاست جمود سے باہر نکل سکے اور ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے-