رضا کارانہ واپسی پر 10برس سزا اچھی تمام نیب ترمیم کو چیلینج نہیں کیا گیا: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے نیب رضا کارانہ واپسی از خود نوٹس کیس نمٹا دیا۔ چیف جسٹس نے کہا رضا کارانہ واپسی کے قانون میں دس سال کی سز ا کی ترمیم اچھی ترمیم ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے موقف اختیار کیا سپریم کورٹ نے رقم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد عہدیداران کی دوبارہ بحالی پر از خود نوٹس لیا تھا، 2022 میں کی گئی ترمیم کے بعد نیب کے سیکشن 25اے کو بھی اب جرم تصور کیا جائے گا جو سزا پلی بارگین میں تھی وہی اب رضاکارانہ واپسی میں بھی شامل کر دی گئی ہے، رقم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد سرکاری عہدہ پر دس سال کیلئے پابندی ہوگی۔ پراسیکیوٹر نیب نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا اس لئے موجودہ کیس کو نیب ترامیم کے بعد سنا جائے۔ جس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا از خود نوٹس کا مقصد پورا ہو چکا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا نیب کی ساری ترامیم کو چیلنج نہیں کیا گیا کچھ ترامیم کو چیلنج کیا گیا ہے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہانیب ایکٹ میں دو ترامیم کی گئیں ہیں ان دونوں کو ہی چیلنج کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوے فاروق ایچ نائیک سے کہا آپ کی ترامیم اچھی ہیں اس لئے انہیں چیلنج نہیں کیا گیا پراسیکوٹر نیب نے موقف اختیار کیا کہ 25 بی کا ذکر نیب ترامیم کیس میں کیا گیا تھا اس لئے میرا ماننا ہے کہ اس کیس میں اس ترمیم کا بھی جائیزہ لیا جار ہا ہے جس کے بعدچیف جسٹس نے ابزرویشن دیتے ہوے کہا سرکاری ملازم کرپشن کیس میں پیسے دے کر کلین چٹ لیتا تھا پھر واپس اپنے ادارے میں جا کر رہی کرتا تھا اسی لئے عدالت نے یہ از خود نوٹس لیا تھا لیکن اب قانون میں جو سقم تھا وہ دور کردیا گیا جس کے بعد کیس سے منسلک دوسرے مقدمات میں ملزمان کے وکلا نے دلائل دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا 184(3) میں انفرادی مقدمات کو نہیں سنیں گے جس کے بعد عدالت نے از خود نوٹس کو نمٹاتے ہوے کیس کے ساتھ منسلک کئے گئے کیس کو علیحدہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔