جمعرات، 16 شعبان المعظم، 1444ھ، 9 مارچ 2023ئ
آصف زرداری سیاسی میدان میں سرگرم
گزشتہ روز ان کی سیاسی سرگرمیاں دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہی آصف زرداری ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک گردن میں کالر چڑھائے ہاتھ میں چھڑی پکڑے کاندھے جھکائے یوں عدالتوں میں پیش ہوتے تھے گویا ایک عمر رسیدہ مرد بیمار ہیں۔ اب ان کی سیاسی سرگرمیاں دیکھیں تو یوں لگتا ہے گویا کوئی نوجوان کبھی خطاب کر رہا ہے ، کبھی پریس کانفرنس ، کبھی ملاقاتیں۔ اب کیا کہیں اس سیاسی بزار میں سب کوئی دودھ کا دھلا نہیں۔ اقتدار میں ہوں تو دنیا بھر کی لالی ان کے چہرے پر چمکتی ہے۔ اقتدار سے باہر ہوں تو ازلی بیماریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ کوئی دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے ۔ ایسا خاموش پڑا یا کھڑا نظر آتا ہے گویا خزاں رسیدہ پتا ہو جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے۔ کوئی ایسا پلستر چڑھاتا ہے کہ تین ماہ کے باوجود وہ ٹوٹی ہوئی ہڈی سے نہیں زخم سے اُترنے کا نام نہیں لیتا۔ کوئی ویل چیئر پر چلتا ہے کو ئی سٹریچر پر نظر آتا ہے۔ یہ عجیب کہانی ہے ہماری سیاست کے سب کردار اس میں یکساں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ عوام یہ سب ڈرامے بازی دیکھ رہی ہوتی ہے۔ مگر پھر خاموش ہیں۔ شاید ان بے چاروں کے پاس اور کوئی چوائس بھی تو نہیں۔ وہ بار بار انہی آزمودہ مہروں کے ہاتھوں لٹنے اور پٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ سب خود ازلی بیماریوں کا شکار ہیں یہ بھلا عوام کے دکھوں دردوں ، بیماریوں اور مسائل کا مداوا کیا خاک کریں گے۔ پہلے یہ اپنا علاج تو کر لیں ان بہروپیوں سے کوئی توقع ہی عبث ہے۔ جی کا زیاں ہے۔
٭٭٭٭٭٭
جامعہ کراچی اور پنجاب یونیورسٹی میں ہندو طلبہ کو ہولی منانے سے روکا گیا
اول تو جس تنظیم نے ایسا کیا وہ شاید آج بھی خود کو 1980ءوالی ڈنڈہ فورس سمجھ رہی ہے جو ضیا آمریت کے بل بوتے پر کالجوں ، یونیورسٹیوں میں دھاک جماتی پھرتی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ خود ضیا دور میں کسی نے ہندو برادری کو ہولی کا تہوار منانے سے نہیں روکا۔ ضیاءالحق تو خود شترو گھن سہنا کے بڑے مداح تھے جو آ کر ان سے ملتے بھی تھے۔ بہرحال ہولی رنگوں کا تہوار ہے۔ ہندو مذہب میں یہ نیکی کی بدی پر فتح کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے جو کسی کی مذہبی رسومات پر روک نہیں لگتا۔ سب کو اپنے مذہبی رسومات حدود و قیود میں رہتے ہوئے منانے کی اجازت دیتا ہے۔ اب ہمارے تعلیمی اداروں، خاص طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو ہندو برادری کے طلبہ و طالبات ہولی مناتے ہیں انہیں جبراً روکنا مار پیٹ کرنا غلط ہے یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والی بات ہے جس کی اجازت نہیں۔ ہندو برادری کے طلبہ و طالبات کو ہولی منانے سے کسی کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے۔ برصغیر کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں مسلم حکمرانوں نے کبھی ایسی پابندی نہیں لگائی تب تو گلی کوچوں میں رنگ پھینکا جاتا تھا گلال ملا جاتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کے دور میں ایسی اوچھ حرکتوں سے صر ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ ہمارے مخالف ہمیں انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کم از کم اپنے ملک کی خاطر ہی نرم رویہ اختیار کریں ہولی سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں البتہ انتہا پسندی سے عالمی سطح پر اسلام کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے اقلیتوں کو انکی مذہبی رسومات منانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ان کا آئینی حق ہے۔
٭٭٭٭٭٭
جنرل (ر) باجوہ اور فیض کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ثاقب نثار
اب اس پر تو ہمیں چچا غالب یاد آتے ہیں انہوں نے کیا خوب کہا تھا۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر نہ تھا....
اب چچا غالب کے مقابلے میں چچا رحمتے بھی کوئی عام آدمی نہیں۔ بڑے عالم فاضل ہوں یا نہ ہوں مگر بہت بڑے قانون دان ضرور ہیں۔ آخر سابق چیف جسٹس رہے ہیں۔ یہ کوئی عام عہدہ نہیں ہوتا۔ ماضی کی مسلم حکومتوں میں ”قاضی القضاہ“ کا عہدہ بہت طاقتور ہوتا تھا۔ بڑے بڑے بادشاہ اور وزیر ان کے سامنے پیش ہوتے ہوئے تھر تھر کانپتے تھے۔ کمی تو ثاقب نثار کے عہد میں نہیں چھوڑی گئی۔ وزیر اعظم تک کو ”یک بینی و دو گوش“ یوں اقتدار سے نکال کر بدنامی کی دلدل میں دھکیلا گیا کہ آج تک اس پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ثاقب نثار خود کو چارچا رحمتے کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ جابجا اہم مقدمات کی بھرمار سے کنی کترا کر کبھی ہسپتال ، کبھی منڈی، کبھی واسا کبھی کہیں کبھی کہیں جا کر ہر وقت میڈیا کے کاندھے پر سوار رہتے تھے۔ سب کو دبکاتے تھے۔ مگر گزشتہ روز ایک انٹرویو میں ان سے منسوب دو عدد جملے کیا سامنے آئے وہ جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے فوراً پینترا بدلتے نظر آئے اور مشک و عرق گلاب سے کُلیاں کرنے کے بعد گویا ہوئے کہ میں نے ان دو حضرات والا تیار کا نام ہی نہیں لیا ذکر ہی نہیں کیا۔ اب انٹرویو دیکھنے والے جائیں اور ثاقب نثار، جب عہدے کی تمکنت رخصت ہو جائے سرکاری چھتری سر سے ہٹ جائے تو موسموں کا پتہ چلتا ہے۔ نام لیتے ہوئے بھی جی دھڑکنے لگتا ہے۔ الزام تراشی تو دور کی بات بولتے ہوئے بھی سو بار تولنا پڑتا ہے۔ باقی باتوں، الزامات کے حوالے سے ثاقب نثار کہتے ہیں میں نے کتاب لکھی ہے جس میں جواب ہوں گے۔ مگر اس حوالے سے تو تُرت نقد بیان جاری کر دیا ہے ناں حیرت کی بات۔ شاید وہ دونوں جن کا نام لیا گیا ہے وہ بھی بہت کچھ جانتے ہوں گے مگر چپ ہے۔ اگر وہ بھی کتاب لکھیں تو قیامت ہو سکتی ہے۔ مگر شرط ہے زندگی میں شائع کی جائے۔
٭٭٭٭٭٭
جنرل ہسپتال سے جعلی ڈاکٹر گرفتار
خدا جانے ان دو نمبر لوگوں نے ہسپتالوں کو کیوں اپنا آسان شکار سمجھ کر نشانے پر لے رکھا ہے۔ جعلی ادویات یہاں ملتی ہیں۔ نومولود بچے یہاں اغوا ہوتے ہیں۔ چوریاں یہاں ہوتی ہیں۔ گندگی یہاں پھیلی رہتی ہے۔ عملہ یہاں مریضوں سے تعاون کی بجائے داخلے اور رخصتی کے وقت زر تاوان طلب کرنے کا عادی ہے۔ ڈاکٹرز کی دستیابی بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنا وقت مریضوں پر خرچ کرنے کی بجائے دیگر امور پر صرف کرتے ہیں۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کبھی وارڈ بوائے کبھی لفٹ آپریٹر کبھی آپریشن اسسٹنٹ ڈاکٹر بن کر مریضوں کی چارہ سازی کرتے نظر آتے ہیں۔ شومئی قسمت سے اگر کوئی ہتھے چڑھ جائے تو خبر اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی ہے ورنہ چل سو چل کام تو چل رہا ہوتا ہے۔ مریضوں کو کیا پتہ یہ سفید کوٹ میں بیٹھا شخص ڈاکٹر ہے یا وارڈ بوائے ۔گزشتہ روز جنرل ہسپتال میں بھی ایک ایسا ہی نوجوان قابو میں آیا جو ڈاکٹر بنا بیٹھا تھا۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ اس کرسی پر جس ڈاکٹر کی ڈیوٹی تھی وہ دستیاب نہیں تھا کہیں اِدھر اُدھر نکلا ہوا تھا۔ خدا جانے اس دو نمبر ڈاکٹر نے کتنے مریضوں کو بے وقوف بنایا ہو گا۔ امید ہے اب حوالات میں قانون کے ڈاکٹر اس کا کافی و شافی علاج کر کے ڈاکٹر سے دوبارہ واپس انسان بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ کیا معلوم وہاں بھی کئی کم خواندہ پولیس والے اور ملزمان کو بھی ڈاکٹر بن کر میڈیسن تجویز کر کے اپنی ڈاکٹری دکھا رہا ہو۔
٭٭٭٭٭٭