آرمی چیف کی عمران خان سے ملاقات سے معذرت
چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے پی ٹی آئی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دان اپنے مسائل خود حل کریں‘ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کریگی۔ آرمی چیف نے گزشتہ روز تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات کی اور ملکی معیشت کے حوالے سے انکے تحفظات پر انہیں یقین دلایا کہ ملکی معیشت پر مشکل وقت اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے‘ کاروباری طبقات پراعتماد رہیں‘پاکستان موجودہ امتحان میں سرخرو ہو گا اور معاشی مشکلات پر قابو پالیا جائیگا۔ اس ملاقات کے حوالے سے جس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے عمران خان کی جانب سے ان سے ملاقات کی خواہش کی تصدیق کی اور بتایا کہ عمران خان نے انہیں ملاقات کیلئے پیغام بھجوایا تھا جس کا انہوں نے یہی جواب دیا کہ بطور آرمی چیف میرا کیا کام کہ میں سیاست دانوں سے ملوں۔ فوج سیاست میں مداخلت کریگی نہ کسی قسم کا سیاسی کردار ادا کریگی۔
آرمی چیف نے تاجروں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک ترقی کریگا اور ہم ایک خوشحال قوم بن کر ابھریں گے۔ ذرائع کے مطابق جنرل عاصم منیر پوری ملاقات کے دوران پرامید نظر آئے اور اس عزم کا اظہار کرتے رہے کہ معاشی مشکلات پر قابو پالیا جائیگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تاجر طبقات کی جانب سے آرمی چیف سے ملاقات کی درخواست کی گئی تھی چنانچہ آرمی چیف نے وفاقی وزیر خزانہ کو اس ملاقات میں شرکت کیلئے مدعو کیا۔ تاجروں کے وفد نے اس ملاقات کو کامیاب قرار دیا۔ دوران ملاقات وفد کو اس امر سے آگاہ کیا گیا کہ آئی ایم ایف کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی گئی ہیں اور اب چند روز میں ہی معاہدہ ہو جائیگا۔ اس وفد میں کراچی اور لاہور کے تاجر شامل تھے جنہوں نے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین ِ پاکستان میں تمام ریاستی اداروں کی حدود و قیود اور دائرہ¿ کار متعین ہے جس کے مطابق تمام امور حکومت و مملکت چلائے جائیں تو کسی قسم کی ادارہ جاتی کشیدگی یا غلط فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ 1973ءکا آئین جو اب اپنی گولڈن جوبلی کے مراحل میں ہے‘ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام پر مبنی ہے جس میں مملکت کے متعینہ ستونوں عدلیہ‘ مقننہ‘ انتظامیہ نے اپنے آئینی اختیارات کے دائرہ کار میں رہ کر ہی جملہ فرائض ادا کرنا ہوتے ہیں۔ 73ءکے آئین سے قبل تو یہ ملک عملاً سرزمین بے آئین تھا۔ 1956ءکے دستور کو جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کی حکومت ٹوپل کرتے ہوئے تاراج کیا اور پھر صدارتی نظام پر مبنی اپنی من مرضی کا دستور 1962ءمیں قوم پر مسلط کیا جو آئین سے زیادہ ایک آمر کا فرمانِ شاہی تھا اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے مفاد پرست سیاست دان اور دوسرے طبقات آمرانہ اقتدار میں اپنے لئے ”شیرینی“ حاصل کرنے کی خاطر اس آمریت اور مطلق العنانیت کو اپنے کندھے فراہم کرتے رہے جبکہ عدلیہ نے بھی نظریہ¿ ضرورت ایجاد کرکے جرنیلی آمریت کا جواز فراہم کیا۔ اس دورِ آمریت کا تسلسل جنرل یحییٰ خان کے دور اقتدار تک قائم رہا چنانچہ 62ءکے دستور کی شکل میں موجودہ فرمانِ شاہی یحییٰ خان کیلئے بھی زادِراہ بنا رہا جس کی بنیاد پر ہی ملک کو 1971ءمیں سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ سے دوچار ہونا پڑا۔ اس سانحہ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر اپنے اقتدار کا پہلا سال 62ءکے فرمانِ شاہی کے مطابق بطور صدر مملکت گزارا اور پھر اپریل 1973ءمیں تمام سیاسی قیادتوں کے اتفاق رائے سے قومی اسمبلی میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام پر مبنی دستور منظور کرکے ملک میں آئین کی پاسداری و عملداری کا آغاز کیا گیا۔ اگر دستور کی اس کتاب کو شروع دن سے ہی حرزِ جان بنایا گیا ہوتا تو شاید آئین کا حلیہ بگاڑتے جانے‘ اسے معطل رکھنے اور محض کاغذ کے چند ٹکڑے سمجھ کر کوڑے دان میں پھینکنے کے اب تک کے آمرانہ عزائم کے اظہار کی نوبت نہ آتی۔
بدقسمتی سے مفاد پرست طبقات بشمول سیاست دانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ماورائے آئین اقدام کیلئے حالات سازگار بنانے کی روش 73ءکے آئین کے نفاذ کے بعد بھی برقرار رکھی جس سے جنرل ضیاءالحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے فائدہ اٹھایا۔ انکے ادوار اقتدار میں آئین میں وضع کئے گئے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا کیا حشر ہوتا رہا‘ یہ ہماری تاریخ کے اوراق میں شامل سیاہ حروف کا حصہ بن چکا ہے۔ بے شک 2008ءکی اسمبلی سے اب تک ملک میں آئین کے مطابق وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ہی قائم ہے اور اس عرصے کے دوران تسلسل کے ساتھ ہونیوالے قومی اسمبلی کے تین عام انتخابات جمہوریت کے تسلسل و استحکام کی ہی نوید ہیں اور اب قوم اسی عرصے کے دوران چوتھے عام انتخابات میں جانے کی بھی تیاریاں کر رہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سسٹم کیلئے یہ خوشگوار صورتحال سسٹم کو آئین و قانون کے مطابق چلائے رکھنے کیلئے ملک کی اس عرصے کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے کئے گئے عہد اور پھر اس عہد کی پاسداری کے باعث ہی مستحکم ہوئی ہے۔ یہ عہد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے باندھا اور سیاست دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے ہر قسم کی ترغیبات کے باوجود جنرل راحیل شریف بھی اس عہد پر کاربند رہے جبکہ اس حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد متنازعہ ہوئے ہیں جن کے حوالے سے متعلقہ حلقوں کی جانب سے عمران خان کے اقتدار کیلئے راہ ہموار کرنے کے اعترافات سامنے آرہے ہیں۔ خود عمران خان بھی اپنے دور اقتدار میں تمام ریاستی اداروں کے ایک صفحے پر ہونے کی وکالت کرتے رہے جبکہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد انہوں نے سارا زور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار میں واپسی پر لگایا۔ جب اس کیلئے انکی دال نہ گلی تو انہوں نے بالخصوص فوج کے ادارے اور اسکی قیادت کو مختلف القابات سے نواز کر مطعون کرنا شروع کر دیا۔ وہ آج بھی اپنی بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود اپنے اقتدار کیلئے اسٹیبلشمنٹ پر ہی تکیہ کئے بیٹھے نظر آتے ہیں اور ملکی حالات میں معاملہ فہمی کیلئے پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کے کردار کی نفی اور تضحیک کرتے ہوئے اس وقت بھی صرف عسکری قیادت کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں مصروف ہیں جو فی الحقیقت آئین و قانون اور اسکے تحت قائم سسٹم کی بھد اڑانے کے مترادف ہے۔
اگر ملک کی سیاسی قیادتیں اپنے تمام سیاسی اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر باہم مل بیٹھ کر اپنے سیاسی مسائل کی گتھیاں سلجھانے اور قومی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی سوچ پروان چڑھائیں اور اقدامات اٹھائیں تو آئین و قانون کے مطابق ملک کا سسٹم نہ صرف ٹریک پر چڑھا رہے گا بلکہ مضبوط و مستحکم بھی ہوگا۔ جنرل عاصم منیر نے قومی سیاسی قیادتوں کو یقیناً یہی راستہ دکھایا ہے جو ملک و قوم کا مستقبل سنوارنے اور تابناک بنانے والا راستہ ہے۔