کبھی شہباز شریف ، آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت نہیں دی : عمران
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دفعہ 144 ختم ہونے کے بعد دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا 8 مارچ کے واقعات 25 مئی کا پارٹ ٹو تھا، وہی افسر کل کے واقعے میں ملوث ہیں جو 25 مئی کو ملوث تھے، ان کا پلان یہ ہے کہ عمران خان گرفتار ہو یا نااہل، جب ہی انتخاب کرائیں گے، مجھے نااہل کریں یا گرفتار، میچ ہم جیت چکے ہیں، یہ زبردستی گراؤنڈ میں کھیل رہے ہیں، یہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں اور مجھ پر حملے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا دفعہ 144 ختم ہو گئی ہے، ہم دوبارہ سڑکوں پر نکلیں گے، ہم جلد انتخابی جلسے شروع کر رہے ہیں، یہ لوگ الیکشن نہیں کرانا چاہتے لیکن 90 روز میں الیکشن نہ ہوئے تو ملک میں آئین اور قانون نہیں رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا پلان ہے عدلیہ کو تقسیم کر کے چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائیں، ہم یہ منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کبھی آرمی چیف سے ملاقات کا نہیں کہا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا میرے خلاف جیسے پرچے درج ہو رہے ہیں لگتا ہے جلد سنچری ہو جائے گی۔ چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن اور چیئرمین پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا مریم اور بلاول کی پرورش کرپشن کے پیسے سے ہوئی ہے۔ عمران خان مزید کہنا تھا ڈاکٹرز نے چلنے اور کھڑا ہونے سے منع کیا ہے۔ قبل ازیں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ ’یہ بیان چل رہے ہیں کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں، تو مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں، جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف ملک میں انتخابات چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرے تو کیا آپ کریں گے، میں نے کہا میں سیاسی آدمی ہوں میں سب سے بات کروں گا، سوائے چوروں کے۔ اس دوران عمران حان نے واضح کیا کہ انہوں نے کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو۔ فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے رویے سے متعلق سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھاکہ ’ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا، ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے، اس سے پہلے کبھی سینئر لوگوں پر اتنا حراستی تشدد نہیں ہوا، ہم نے سوچا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہوجاؤں یا جیل چلا جاؤں اور یہ الیکشن جیت جائیں، قوم حکومتی جماعتوں کے خلاف ہو چکی تھی، اس لیے میں 2018 کا الیکشن جیتا، اب جو مہنگائی ہوئی ہے اب تو یہ جماعتیں بالکل دفن ہو چکی ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا ہم انتخابی ریلی کرتے ہیں تو پولیس آ جاتی ہے۔ گاڑیاں توڑیں گئیں۔ واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ نگران حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا۔ یہ کیسے روک سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کروانا ہیں تو انتخابی مہم اور ریلی کے بغیر الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟۔ اس سے قبل غیرملکی چینل کو انٹرویو میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے کیونکہ جن لوگوں نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی وہ اقتدار میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیسے میں انتخابی مہم چلاؤں اور کس طرح عدالتوں میں پیش ہوں؟۔ تین بار عدالتوں میں پیش ہوا لیکن بدقسمتی سے وہاں سکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔