خان صاحب گڈ وڈیو ایڈیٹر بھی ہیں
کل خان صاحب نے ایک تاریخی ریلی زمان پارک سے داتا دربار تک نکالنی تھی۔ پی ٹی آئی کی اطلاعات کے مطابق اس میں لگ بھگ ستر لاکھ نصف جن کے 35 لاکھ ہوتے ہیں، افراد نے شرکت کرنی تھی (تعداد آپ کو کچھ زیادہ لگے تو تھوڑی سی کم کرنے کی اجازت ہے) امپورٹڈ نگران حکومت نے کچھ ایسی سازش رچائی کہ شرکا کی تعداد 500 سے زیادہ نہ بڑھ سکی جس پر ریلی ملتوی کر دی گئی اور 70 لاکھ شرکا کو اگلے اعلان کا انتظار کرنے کے لیے کہہ دیا گیا۔
کچھ بھی اس میں عجیب نہیں۔ جب پولیس زمان پارک کے دونوں طرف سڑک بند کر دے گی تو ریلی کیسے نکلے گی۔ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر جملہ 70 لاکھ شرکاء تک پہنچ گئی کہ سڑک دونوں طرف سے بند ہے چنانچہ ان سب 70 لاکھ نے اجتماعی فیصلہ کیا کہ جب سڑک ہی بند ہے تو جانے کا فائدہ کیا لہٰذا بہتر ہے، گھر پر ہی رہو ، ٹویٹ دیکھو، پکوڑے سموسے کھائے اور پھر 70 لاکھ نے اسی اجتماعی فیصلے پر عمل کیا۔ سچے انقلابی حقیقت پسند بھی ہوا کرتے ہیں۔ ایک حقیقت پسند انقلابی کی وہ بات آپ کو یاد ہو گی کہ جب پولیس ہمیں ڈنڈے مارے گی تو ہم پھر کیسے انقلاب لائیں گے۔ زمان پارک کے باہر یہی ہوا البتہ کچھ مختلف بھی ہوا۔ پی ٹی آئی کے ایک کیمپ ذمہ دار نے بتایا کہ اس وقت یہاں موجود انقلابیوں کی تعداد 500 سے زیادہ نہیں ہے۔
خیر، کچھ کر دکھانے کے لیے اتنے بھی کافی تھے۔ ایک محترمہ نے جو لاہور کی حد تک پارٹی کی بڑی رہنما مانی جانی ہیں، کارکنوں سے خطاب کیا اور حکم دیا کہ جائو اور جا کر رستہ کھلوائو۔ ڈنڈوں، پتھروں غلیلوں والے ان کارکنوں کو بتایا گیا کہ پولیس کے پاس بندوقیں نہیں ہیں۔ بس لاٹھیاں ہیں اور پانی کی توپ__ چنانچہ بہادری نے انگڑائی لی اور پولیس پر حملہ کر دیا۔ پولیس نے جوابی کارروائی کی۔ تھوڑی بہت ’’دھیں ٹپاس‘‘ ہوئی جس کے بعد انقلابی زمان پارک کے سامنے سے ہٹ کر پچھلے علاقے میں چلے گئے اور دھرم پورہ والی سڑک پر مورچہ بندی کی۔ گیارہ بارہ پولیس والے، چھ سات مجاہدین آزادی زخمی ہوئے۔ ادھر سورج ڈھلا، ادھر انقلاب کی بھی شام ہو گئی پھر خاموشی کا ایک وقفہ آیا اور کارکن بڑی تعداد میں یعنی دو اڑھائی کا پورا پورا خلاصہ اتنا ہی ہے، زیب داستان کے لیے ترمیم و اضافے کی آپ کو پوری اجازت ہے۔
_________
دوسرا واقعہ ایک کارکن کی ہلاکت کا ہوا۔ پولیس کا دعویٰ ہے اسے پی ٹی آئی والوں نے مارا، پی ٹی آئی کہتی ہے، پولیس نے تحویل میں لے کر مارا۔ ادھر ایک وڈیو سی سی کیمرے کی آ گئی ہے جس میں نامعلوم افراد متوفی کو ہسپتال میں رکھ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ تحقیقات ہوئی تو پتہ چلے گا کہ یہ عجیب ماجرا کیا تھا۔ خان صاحب نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جب پولیس نے متوفی کو تحویل میں لیا تو وہ وین میں صحیح سلامت تھا ، ایک وڈیو جاری کی۔ متوفی اس میں نعرے لگا رہا تھا۔ فوراً بعد کسی اور نے بلکہ کئی اداروں نے پوری وڈیو جاری کر دی جس میں قیدی بتا رہے ہیں کہ وہ جیل بھرو تحریک میں گرفتار ہوئے ہیں یعنی وڈیو پرانی تھی۔
اچھا وڈیو ایڈیٹر وہ ہوتا ہے جو نامناسب اور غیر ضروری فقرے اور سین وڈیو سے حذف یعنی ڈیلیٹ کر دے۔ معلوم ہوا بلکہ ثابت ہوا کہ خان صاحب اچھے نہیں، بہت اچھے وڈیو ایڈیٹر ہیں۔ یہ فقرہ کہ ہم جیل بھرو تحریک میں جا رہے ہیں، صرف نامناسب نہیں مضر صحت بھی تھا چنانچہ خان صاحب نے بہت اچھا وڈیو ایڈیٹر ہونے کے ناطے یہ مضر صحت فقرہ حذف کر دیا۔ یہاں مضر صحت میں صحت سے مراد وہ ہیلتھ کارڈ والی صحت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ صحت ہے جس کا تعلق ’’فیکٹ چیک‘‘ سے ہے۔ خان صاحب کے متوالوں نے اگر صر حذف شدہ وڈیو کو درست مانا تو کیا غلط کیا۔ انہوں نے تو جرمنی جاپان بارڈر اور کے پی میں ایک ارب درختوں والی بات بھی مان لی تھی اور اس بات پر بھی ایمان لے آئے تھے کہ رجیم چینج سازش امریکہ نے کی تھی اور جب خان صاحب نے کہا کہ امریکہ نہیں، باجوہ نے کی تھی تو ان متوالوں نے فوراً ہی تجدید ایمان بھی کی تھی۔
________
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا سارا زور یا بہت سارا زور اس بات پر ہے کہ خان صاحب بزدل ہیں، ڈر کے مارے عدالت پیش نہیں ہوئے۔
دراصل یہ لوگ حقائق کی تصویر کو الٹا دیکھ رہے ہیں۔ بزدلی نہیں، یہ بہادری ہے اور ایسی بہادری ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں بے مثال ہے۔
بزدلی اور تھڑ دلی ان میں ہوتی ہے جو وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہی گرفتاری دے دیتے ہیں، عدالت طلبی پر وقت سے پہلے پیش ہو جاتے ہیں۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ دیر کر دی تو نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ بہادری تو یہ ہے کہ پیش ہو گی میری جوتی، جس نے جو کرنا ہے کر لو۔ یہ ہے بہادری اور یہی ہے سورمانی کہ ناخدا بندے سے خود پوچھیں بتا کتنے دن کی ضمانت چاہیے بلکہ آپ فرما دیجئے کہ کتنے دن اور تشریف نہیں لا سکیں گے۔
یہ ہے سورمائی، بہادری اور دلیری کہ مسند نشینوں کا زہرہ بھی حاضر ہونے کا حکم دیتے وقت آب ہو جائے۔
رہا سوال باہر نہ نکلنے کا تو اس کا تعلق درویشی، گوشہ نشینی ، دنیا سے بے پروائی اور رحونیاتی استغراق سے ہے۔ بات سمجھنا آسان ہے اگر سمجھ کا مادہ ہو جو عمران خان کی ’’اپوزیشن میں نہیں ہے۔
_______
مریم نواز کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید نے پراپرٹی ٹائیکون کے ترجمان کو بتایا کہ وہ تو اتنے بااختیارات تھے ہی نہیں، سارا اختیار تو جنرل باجوہ کے پاس تھا۔
یعنی دو سطروں میں چار سالہ تباہی کا سارم ’’مدّا‘‘باجوہ صاحب پر ڈال دیا۔ باجوہ صاحب پہلے ہی پریشان ہیں کہ خان صاحب نے ان کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ادھر مریم صاحبہ فیض صاحب کا کورٹ مارشل مانگ رہی ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ دونوں کا مطالبہ مان لیا جائے۔
__________