الزامات کا دور!!!!!!!
یہ الزامات کا دور ہے جس کا جو دل کرتا ہے بولتا جا رہا ہے کسی کو احساس ہے نہ خیال ہے نہ الفاظ کی قدر ہے نہ اپنی ساکھ کی کوئی فکر ہے بس ہر وقت بولنا ہے اور بولتے ہی چلے جانا ہے۔ بولنے کی ضرورت ہے یا نہیں یہ سوچنا تو بہت دور کی بات ہے اور یہ بات بہت پیچھے رہ چکی ہے۔ کبھی خاموش رہنے والوں، بوقت ضرورت بولنے والوں یا کم بولنے والوں کی قدر ہوتی تھی آج زیادہ بولنے والوں اور ہر وقت بولتے رہنے والوں کی اہمیت کا زمانہ ہے آج زیادہ اور بے تکان بولنے والوں کا دور ہے ایسے لوگوں کا شور ہے اور بدقسمتی ہے شدید معاشی مشکلات سے دوچار اس ملک کی سمت کا تعین کے مشورے بھی ایسے ہی لوگ دیتے ہیں اور ایسے لوگ ہی ہمارے مستقبل کے فیصلے بھی کر رہے ہیں۔ الزامات اس شدت سے لگتے ہیں کہ عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نجانے ہم کب سدھریں گے، کب سنجیدہ بامقصد اور بامعنی گفتگو کی طرف بڑھیں گے۔ مانیں یا نہ مانیں جب ہماری گفتگو کا معیار بہتر ہونا شروع ہوا حالات میں بہتری کا سفر بھی شروع ہو جائے گا اگر گفتگو میں بہتری نہ ہوئی تو اصلاح کا خیال دل سے نکال دیں۔
جب ہم الزامات کی بات کرتے ہیں تو پھر سب سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نمایاں نظر آتے ہیں حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے بیرونی سازش اور مداخلت کا الزام لگایا،لوگوں کو متحرک کیا انہیں ہر جگہ یہ بتایا کہ موجودہ حکومت امپورٹڈ ہے اور انہیں پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہ بیرونی مداخلت سے آئے ہیں اور انہیں سازش کر کے حکومت دی گئی ہے پھر یکایک عمران خان اپنے اس بیانئے سے الگ ہو گئے کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ اس الزام سے ملک کو کتنا نقصان ہوا اور اگر یہ جھوٹ تھا تو اس کی ضرورت کیا تھی اور اس ڈرامے کا ذمہ دار کون ہے اور اس جھوٹے بیانئے کی وجہ ملک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔ پھر انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا الزام بھی سرکاری شخصیات پر عائد کیا اس کے علاوہ بھی وہ مختلف ریاستی اداروں کے سربراہان پر ہر وقت الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اس الزام تراشی سے انہیں کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں یہ بات طے ہے کہ ملک کو نقصان ضرور ہوتا ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے بھی اپنے والد میاں نواز شریف کو دوران قید زہر دئیے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔ مریم نواز کہتی ہیں "دوران قیدی جب میرے والد کے پلیٹ لیٹس گرے، ان کی حالت بگڑی اور وہ زندگی و موت کی کشمکش میں آئے تو کچھ لوگوں کے ہاتھ پاو¿ں پھول گئے تھے۔کبھی نہ کبھی یہ بات سامنے آجائے گی کہ اس معاملے میں بھی عمران خان ملوث تھا نوازشریف کو باہر بھیجنا ان لوگوں کی مجبوری تھی۔" یہ اور اس جیسے درجنوں الزامات پاکستان کے سیاست دان ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں اور یہ سب کرنے کے بعد یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ دنیا ان پر اعتماد کرے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو لوگ یہاں کاروبار کرنے آئیں۔ کوئی ان سے پوچھے ایسے حالات میں کاروبار کون کرے گا۔ سرمایہ کاری کیسے ہو گی جب یہ سارے مل کر ریاست کے اداروں کو ہی متنازع بناتے رہیں گے تو لوگ کیسے اعتبار کریں گے۔ کاروبار کرنے والے پیسے بنانے آتے ہیں بیماریاں لینے اور مصائب سے گزرنے کا کوئی شوق نہیں ہوتا آپ انہیں کام نہیں کرنے دیں گے وہ کہیں اور کر لیں گے۔ سرمایہ کاری کے لیے اچھا ماحول سب سے پہلی شرط ہے۔ اس وقت ساری جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ دونوں قوتیں آمنے سامنے ہیں ایک قوت ہر حال میں انتخابات کے حق میں ہے دوسری طاقت فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ دیکھتے ہیں اس حوالے سے کیا ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے موجودہ حالات فوری انتخابات کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی سلسلہ میں سیکرٹری وزارت خزانہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے لیے مطلوبہ فنڈز کی فراہمی کو مشکل قرار دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرِ صدارت الیکشن کمیشن کے اجلاس میں سیکرٹری وزارت خزانہ حامد یعقوب نے مالی معاملات پر جبکہ سیکرٹری داخلہ نے سکیورٹی کے معاملات پر بریفنگ دی۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں شریک سیکرٹری خزانہ نے مطلوبہ فنڈز کی فراہمی مشکل قرار دی ہے۔ دوسری طرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن میں ہونے والے اجلاس میں سیکیورٹی اداروں کے افسران کی جانب سے پنجاب اور کے پی میں الیکشن کے لیے سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔
باخبر دوستوں کے مطابق اجلاس میں موجود سیکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں اور وہاں اس وقت ٹی ٹی پی بہت متحرک ہے۔ کیا ان حالات میں انتخابات کا فوری انعقاد ممکن ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ فنڈز کی کمی کے ساتھ ساتھ امن و امان کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ایک طرف فنڈز کی قلت کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف امن و امان اس لیے انتخابات کے حوالے سے آئین کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات کو دیکھنا بہت اہم ہے۔ اگر آپ زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے آگے بڑھتے ہیں تو کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا۔ ملک میں پہلے ہی تخریبی ذہنوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
کیونکہ ہمارا حکمران طبقہ ہر معاملے کو اپنے سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتا ہے جیسا کہ چند روز قبل آرمی چیف کی کاروباری شخصیات سے ہونے والی ملاقات کا معاملہ ہے اس ملاقات کو پی ٹی آئی کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ فواد چودھری نے بیان بھی جاری کیا جو خالصتا ایک سیاسی جماعت کے ترجمان کی سوچ تھی حالانکہ وہ ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے اس سے بہتر گفتگو کر سکتے تھے کیونکہ ان کے دور حکومت میں بھی یہ کام شدت سے ہوتا رہا ہے اس پر پہلے بھی لکھا تھا اب چونکہ ایک جواب کاروباری شخصیات کی طرف سے بھی آیا ہے اس کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کاروباری شخصیات کے ساتھ ملاقات پر تنقید کرنے والوں کے پلے کیا بچا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ کاروباری شخصیات کے مطابق معاشی معاملات میں آرمی چیف کی مداخلت اور بزنس کمیونٹی سے باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ سابق وزیراعظم عمران خان نے شروع کیا تھا۔ عمران خان کہتے تھے بزنس کمیونٹی کے مسائل کے لیے ہی نہیں آرمی چیف بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ کاش ہمارے سیاست دان بولنے سے پہلے تولنا شروع کر دیں۔