کرکٹ کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کلب کرکٹ پر توجہ دینا ہو گی
پی سی بی گورننگ بورڈ کے سابق رکن خواجہ ندیم احمد کی گفتگو
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ہر سطح کی کرکٹ میں معیار نیچے آیا ہے اور اگر ہم پی ایس ایل کے آٹھویں ایڈیشن کو دیکھتے ہیں تو یہاں بھی مقابلے کی فضا وہ نہیں ہے جس کے لیے پی ایس ایل مشہور تھی۔ پی ایس ایل کی کامیابی میں سب سے بڑا حصہ باصلاحیت مقامی کھلاڑیوں کا تھا لیکن ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کی وجہ سے آج ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں اور جو کرکٹرز کھیل کے میدانوں سے دور ہوئے ہیں ہمارے پاس اُن کے متبادل نہیں ہیں۔ صائم ایوب اور احسان اللہ کے علاوہ کوئی ایسا کھلاڑی نظر نہیں آتا جسے دیکھ کر آپ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی اچھی بات کر سکیں۔ باصلاحیت کھلاڑیوں کی قلت تشویشناک اور لمحۂ فکریہ ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کلب ، ریجنل کرکٹ اور ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی مکمل طور پر جلد بحالی اور معیار کو بلند کرنے کے لیے ہنگامی اور انقلابی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں کلب کرکٹ کو بہت نقصان پہنچا ہے یہی وجہ ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کا معیار بھی گرا ہے۔ ہمارے پاس پی ایس ایل کی 6 ٹیمیں ہیں لیکن 6 وکٹ کیپرز نہیں ہیں۔ کوئی آف سپنر نظر نہیں آتا ، کوئی فاسٹ بائولنگ آل رائونڈر نہیں ہے۔ مڈل آرڈر بلے بازوں کی کمی ہے۔ ان حالات میں دنیا کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ کلب کرکٹ کی سطح پر مقابلوں کا انعقاد اور کلب آرگنائزرز کی حوصلہ افزائی سے اس سطح پر کھیل کو جدید طریقوں کے مطابق چلانے کی ضرورت ہے۔ کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کو اس انداز سے محفوظ بنایا جائے کہ سینئرز کرکٹرز کھیل کے میدان سے جڑے رہیں۔ ان دنوں سینئرز کرکٹرز نے گرائونڈ میں آنا چھوڑ دیا ہے جس وجہ سے بچوں کو سیکھنے کا موقع نہیں مل رہا اور نہ ہی انہیں اپنے سے بہتر کرکٹرز کے ساتھ کھیلنے کے مواقع مل رہے ہیں ہم اس ماحول کو دوبارہ بہتر بنانا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہمیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی سے اچھی توقعات ہیں وہ ماضی بھی اچھا کام کر چکے ہیں لیکن اس مرتبہ اُن کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ نوجوانوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے اور کھیل کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کام کریں گے۔