• news
  • image

پاکستان سپر لیگ کو قومی اثاثہ سمجھا جائے 

حافظ عمران 
چند کروڑ کے لیے لیگ کے میچز کو دائو پر لگانا اچھی بات نہیں 
پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی کی کوششوں سے لاہور اور راولپنڈی میں میچز ہوئے 
لاہور قلندرز کے سی او او ثمین رانا کی گفتگو 
پاکستان سپر لیگ کے آٹھویں ایڈیشن میں دلچسپ مقابلوں کا سلسلہ جاری ہے بالخصوص راولپنڈی میں ہونے والے ہائی سکورنگ مقابلوں سے شائقین کرکٹ بہت لطف اندوز ہوئے چوکوں چھکوں کی برسات نے میچ دیکھنے کے لیے سٹیڈیم آنے والوں کے پیسے پورے کر دئیے۔ یہ لمحات کہ جب بابر اعظم سنچری کریں، صائم ایوب  دلکش شاٹس کھیلیں، جیسن روئے جارحانہ انداز سے بائولرز کی پٹائی کرتے چلے جائیں، فخر زمان کے  لمبے لمبے چھکے ہوں تو دیکھنے والوں کی عید ہوتی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ان حالات میں بائولرز کی حالت پر رحم آتا ہے لیکن اسلام آباد یونائٹڈ اور لاہور قلندرز کے میچ میں یہ ثابت ہوا کہ بیٹنگ پچ پر بھی اچھی بائولنگ سے وکٹیں حاصل کی جا سکتی ہیں لاہور قلندرز نے ایونٹ میں اب تک شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ سب سے زیادہ میچز جیت کر پوائنٹ ٹیبل پر سب سے اوپر نظر آتے ہیں۔ دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر ثمین رانا کہتے ہیں کہ ٹیم کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے اور جس انداز میں پاکستان کے چار بڑے شہروں ملتان، کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں قلندرز کے پرستاروں نے اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سٹیڈیم کا رخ کیا ہے کھیل سے محبت کا یہ جذبہ ہی ہمارا انعام ہے۔ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے مختلف میچز میں میچ وننگ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کبھی شاہین کبھی ڈیوڈ ویسا ، کبھی سکندر رضا ، کبھی فخر زمان ، کبھی راشد خان ،کبھی عبداللہ شفیق تو کبھی حارث رئوف نے اپنے کھیل سے میچ کا نقشہ بدلا۔ ہم ٹائٹل کے دفاع کے لیے پُرامید ہیں، اس ٹیم کو بنانے کے لیے ہم نے برسوں محنت کی ہے ، اس دوران بہت تلخ باتیں بھی سُننے کو ملیں ، تنقید بھی ہوئی اور ہمارا مذاق بھی بنا لیکن ہم ایک مقصد کے تحت کام کر رہے تھے اور آج سب کے سامنے ہے کہ ہم صرف ایک یا دو ماہ کی فرنچائز نہیں تھے ہم نے سارا سال کام کیا، پاکستان کے نوجوان کرکٹرز کے لیے مواقع پیدا کیے ، نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی اُمید پیدا کی ، اُن میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا۔ قلندر کے پلیٹ فارم سے ہمارے کرکٹرز بیرون ملک بھی کھیل رہے ہیں اور غیر ملکی کھلاڑی یہاں آ رہے ہیں۔ کرکٹ کھیلنے والے مختلف بڑے ملکوں کے ساتھ ہمارے معاہدوں سے بھی نوجوانوں کو فائدہ ہو گا۔
پاکستان سپرلیگ کے آٹھویں ایڈیشن کے آغاز میں لاہور اور راولپنڈی سے میچز کی منتقلی کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال بہت افسوسناک تھی ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا پی ایس ایل کو قومی اثاثہ سمجھنا چاہیے اس کے ساتھ ایک قومی اثاثے جیسا برتائو ہونا چاہیے یہ تو کوئی بات نہیں ہے کہ ایونٹ کے دوران کھلاڑی میچز کی تیاری کریں یا پھر سامان باندھیں۔ اس غیر یقینی کی صورتحال نے سب کو متاثر کیا۔ چند کروڑ کے لیے پی ایس ایل جیسے کامیاب ایونٹ کو دائو پر لگانا اچھی سوچ نہیں تھی۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ اگر میچز لاہور اور پنڈی سے منتقل ہو جاتے تو آنے والے دنوں میں پاکستان کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا۔ کھلاڑیوں کو ہیڈ آف سٹیٹ کی سیکیورٹی دی جاتی ہے اُس کے اخراجات برداشت کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ایسے میں تو بہتر ہے ہم پی ایس ایل کو کہیں باہر لے جائیں جیسا کہ پہلے ہوتا بھی رہا ہے۔ لیگ کو متحدہ عرب امارات یا کسی بھی اور جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ پاکستان کا سب سے بڑا برانڈ ہے اور اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا کردار لاہور اور راولپنڈی میں انعقاد کے حوالے سے بہت مثبت رہا اور اُن کی کوششوں سے ہی ان دو بڑے شہروں کے شائقین کرکٹ کو اعلیٰ معیار کی کرکٹ اور تفریح میسر آئی ہے۔ کھلاڑیوں کو قیمتی موبائل اور مہنگے پلاٹس صرف اور صرف محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں۔ ہم بہت اچھے ماحول کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹیم کا ہر کھلاڑی یہ کہتا ہے کہ قلندرز ایک فیملی ہیں اور ہم اپنے کھلاڑیوں کا اپنی فیملی کی طرح خیال رکھتے ہیں۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن