موبائل فون واپس نہ کرنے پر ٹک ٹاکر بیٹے نے باپ کے سینے میں 5گولیاں اتاردیں
اشاعت خاص … خالد بہزاد ہاشمی … کرائم کارنر
نوائے وقت کی ملزم حسنین کے ماموں فضل وہاب اور وحید خان تاجک سے خصوصی گفتگو
ٹیکسی ڈرائیور باپ نے بیٹے کو مہنگا موبائل لیکر دیا، بُری صحبت سے منع کرنا قتل کا باعث بنا
محرر کے کمرے اور مین شاہراہ پر پولیس کے ڈالے کیساتھ وڈیوز کے چرچے
ماں کے پیٹ میں گولی لگی، تین آپریشن ہوئے، معذور بھائی بہن کا زخم دیکھ کر بے ہوش ہو گیا
قتل سے ایک رات قبل مقتول نے بیٹے سے موبائل لے لیا تھا، جھگڑے پر اسے مارا پیٹا بھی تھا
سوشل میڈیا پر ملزم کے چرچے، اسے معاف کرنے کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے
باپ کو قتل اور ماں کو شدید زخمی کرنے والے جلاد صفت بیٹے حسنین کے چہرے پر کوئی ندامت و پشیمانی نہیں تھی
……………
چند یوم قبل جندول معیار لوئردیر کے گاؤں گھمبیر میں ایک دل دہلا دینے والا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا جہاں سولہ سالہ نو عمر ٹک ٹاکر حسنین نے موبائل فون واپس نہ کرنے پر اپنے حقیقی والد شیر باز خان کے سینے میں پانچ گولیاں اتار کر قتل اور ماں کو شدید زخمی کر دیا۔ ماں کی حالت خاصی تشویشناک رہی ا ور اس کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں تین آپریشن ہوئے اور بعد ازاں اسے ان کے بھائی فضل وہاب نے اپنے گھر منتقل کر دیا۔ یہ ایک ایسا المناک واقعہ ہے جس میں ماں باپ کی آنکھوں کا تارا لاڈلا بیٹا ان دونوں کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور باپ کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنی عدم موجودگی میں نو عمر بیٹے کو (جس کی بھٹکنے کی عمر تھی) بُرے دوستوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع کیا تھا۔
لوئیر دیر کا یہ قصبہ گھمبیر افغان سرحد پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور یہاں معروف ٹورسٹ علاقہ ’’حرکی‘‘ بھی ہے جہاں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں اور یہاں دہشت گردی بھی ہوئی تھی۔ پُرفضا قصبہ کی آبادی دس ہزار سے زائد گھروں پر مشتمل ہے اور یہ پی ٹی آئی کے ایم این اے محمد بشیر خان کا حلقہ ہے۔ پہاڑوں پر ٹورسٹ علاقے میں چشمے، جھرنے بھی ہیں جہاں ملزم حسنین جا کر ویڈیوز بناتا رہا ہے۔ حسنین آجکل ڈسٹرکٹ جیل تیمر گرا لوئر دیر میں نظر بند ہے اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں اس کی کئی پیشیاں ہو چکی ہیں۔ وطن عزیز کے اس دور افتادہ علاقہ میں اُردو کم ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے اس لیے سوشل میڈیا پر پشتو میں بھی مصدقہ اور غیر مصدقہ رپورٹس چلتی رہیں۔ نوائے وقت نے اس سلسلہ میں جندول پریس کلب کے صدر اور نوجوان صحافی وحید خان تاجک اور ملزم حسنین کے ماموں فضل وہاب سے دور افتاد مقام جندول معیار گھمبیر میں فون پر رابطہ کیا اور ان سے اس اندوہناک سانحہ کی تفصیلات معلوم کیں۔ فضل وہاب اس حادثہ کی زیادہ معلومات دینے سے کترا رہے تھے یا پھر وہ لاعلم تھے جبکہ جرنلسٹ وحید خان تاجک نے نہایت خوش اخلاقی اور مہذب انداز میں اپ ڈیٹ معلومات دیں ان کی اُردو بھی خیبر پختونخواہ کے جرنلسٹوں کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی ان کے تعاون کا شکریہ۔
ملزم حسنین کے ماموں فضل وہاب نے نوائے وقت کو بتایا کہ وہ بچپن سے پولیو کے باعث معذوری کا شکار ہیں میں گاؤں میں بیٹھا تھا تو ہمیں فون آیا ہم فوراً گاڑی میں بہن کے گھر آئے تو چھوٹا بھانجا گلے لگ کر رونے لگا کہ ماموں! حسنین بھائی نے بابا اور ماں کو گولیاں مار دی ہیں میں اندر گیا تو کمرے اور باہر خون ہی خون تھا۔
فضل وہاب نے بتایا کہ جب انہوں نے بہن کا زخم دیکھا تو وہ صدمہ سے نیچے گر گئے تھے۔ ڈاکٹر نے انہیں پانی پلانے اور دوبارہ مریضہ کے پاس نہ بٹھانے کی تاکیدی کی تھی۔ فضل وہاب نے بتایا کہ ان کی زخمی بہن آپریشن تھیٹر میں لے جاتے ہوئے بھی اپنے شوہر کا پوچھ رہی تھی کہ مجھ سے پہلے اس کا علاج کراؤ، ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے کہ اسے مقتول شوہر کے بارے میں نہ بتایا جائے کیونکہ وہ ابھی یہ صدمہ نہیں جھیل سکے گی۔ حسنین دو بھائی اور چار بہنیں ہیں جن میں سے ایک شیرخوار ہے۔ ملزم حسنین کے ماموں فکر مند تھے کہ وہ معذوری کے عالم میں زخمی بہن اور اس کے معصوم بچوں کی کفالت کیسے کریں گے جبکہ ان کے اپنے بھی 6 بچے اور والدہ ایک غیر شادی شدہ بہن بھی ساتھ ہیں۔ یہ تو تھا فضل وہاب کا بیان۔
ملزم حسنین بُری صحبت کا شکار تھا اور اس کا اٹھنا بیٹھنا اور گھومنا پھرنا بُرے لوگوں کے ساتھ تھا۔ اس کا والد ان لوگوں کے ساتھ تعلق سے سختی سے منع کرتا تھا۔ قتل سے پہلے وہ اپنے انہی آوارہ دوستوں کے ساتھ ایک رات کے لئے ٹورسٹ علاقے ’’خرکی‘‘ نزد (افغان بارڈر) بھی گیا تھا جس کا پڑوسیوں سے معلوم ہونے پر والد نے وقوعہ کی شب اسے مارا پیٹا اور سخت بُرا بھلا بھی کہا تھا اور اس سے موبائل بھی لے لیا تھا۔ والد کے مارنے کے اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس رات حسنین گھر پر نہیں رہا جبکہ اس کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ گھر پر ہی تھا۔ اگلی صبح حسنین نے والد سے موبائل واپس مانگا تو باپ نے اسے واپس کرنے سے صاف انکار کر دیا پھر سے جھگڑا ہوا اور مار پیٹ ہوئی اسی اثنا میں مشتعل حسنین نے پستول سے باپ کے سینے میں پولیس کے مطابق پانچ گولیاں اُتار دیں۔ ماں فائرنگ کی آواز سُن کر بچانے کے لئے آگے بڑھی تو ایک گولی اسے بھی ناف کے قریب لگی۔ ملزم حسنین کے مطابق وہ پستول اس کے والد کا تھا جبکہ دیگر افراد کا کہنا تھا کہ یہ پستول وہ باہر سے لایا تھا۔
باپ کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے بعد یہ ذرا بھی خوفزدہ، پشیمان اور نروس نہیں ہوتا بلکہ اس کے مطمئن چہرے کو دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے کوئی معرکہ اور محاذ فتح کر لیا ہو۔ یہ وہاں موجود لوگوں سے کہتا رہا کہ بھاگوں گا نہیں میں نے تھانے میں بات کر رکھی ہے اور خود گرفتاری پیش کردیتا ہے۔
ویڈیوز میں متعلقہ پولیس کا نو عمر قاتل سے ہمدردانہ رویہ بہت سے شواہد کی نشاندہی کر رہا ہے جب اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں اور وہ زمین پر بیٹھتا ہے تو دو پولیس اہلکار ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہوئے پانی کا گلاس اسے بیٹھ کر پیش کرتے اور اسے دلاسہ اور چمکارتے دکھائی دیتے ہیں متعلقہ پولیس کے ساتھ نو عمر ملزم حسنین کے تعلق کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں یہی حسنین اس لرزہ خیز جرم سے قبل تھانے میں محرر کے کمرہ میں جہاں سیکرٹ ریکارڈ بھی موجود ہوتا ہے ٹک ٹاک بناتا رہا ہے۔ ایک اور ویڈیوز میں وہ سڑک پر پولیس موبائل کے ساتھ ویڈیو بنا رہا ہے اس کی پولیس اہلکاروں سے دوستی کے چرچے زبان زدِ عام ہیں۔
دوسرے باپ اور ماں کے جسم میں گولیاں اتارتے وقت اس کے کپڑے خون آلود اور گندے ہو گئے تھے جو گرفتاری کے وقت اس کے جسم پر موجود تھے۔ وہ نہایا ہوا نہیں تھا بال بھی پراگندہ تھے۔ لیکن حوالات میں بند ہونے کے بعد پولیس اہلکاروں کی اس پر ’’غیر معمولی مہربانی‘‘ سے اگلی صبح اسے گھر سے استری شدہ کاسنی رنگ کا سوٹ اور جیکٹ بھی تن نازک پر زیب تن کرنے کے لئے مہیا کر دیی جاتی ہے اور حوالات میں ہی اسے نہانے اور بال سنوارنے کی سہولت بھی مہیا کر دی جاتی ہے اور یوں ایک نو عمر جلاد قاتل کو ہیرو کے روپ میں سوشل میڈیا پر پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں یہ جتنے دن بھی پولیس کے پاس حوالات میں رہا پولیس کی تمام تر ہمدردیاں اور رعایت اس کے ساتھ تھی۔ سوشل میڈیا پر حوالات میں اس کی تصاویر وائرل ہونے پر سینکڑوں لوگوں نے حوالات کا رُخ کر لیا اور پولیس کمال مہربانی سے اسے وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر بنانے کی اجازت دیتی رہی۔ پولیس نے حسنین کو حوالات میں فری ہینڈ دے کر ملزم سے ہیرو بنانے میں تمام قوانین کی سرعام دھجیاں اُڑا دیں۔ اس کی نوخیزی، خوبصورتی اور ویڈیوز کے صوبے بھر میں چرچے ہیں جہاں ایک طرف لوگوں کی اکثریت اس کے اس ظالمانہ فعل کی مذمت کر رہی ہے وہیں اس کی خوبصورتی پر فدا ہونے والے اسے معاف کرنے کی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا والے بھی اس کے حسن و خوبصورتی پر دل و جاں سے فدا نظر آتے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر جرنلسٹ کو اس کے دراز گیسوؤں کی لٹ بہانے سے چھو کر بات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اس کی عمر اٹھارہ سال سے کم یعنی سولہ سال ہے۔ پولیس اسے ہتھکڑی نہیں لگا سکتی اور نہ ہی حوالات میں بند کر سکتی ہے۔
مقتول شیربازخان ڈرائیور تھا اور اسلام آباد، راولپنڈی میں ٹو ڈی موٹر چلاتا تھا وہ تیس چالیس روز تک گھر سے دور رہتا اور اس دوران وہ پشاور، لاہور اور کراچی بھی جاتا اور بقیہ دس روز کے لئے گھر واپس آجاتا۔ وہ اپنے بیوی بچوں اور اس جلاد صفت قاتل بیٹے کے لئے گرمی سردی میں ہزاروں میل کا سفر طے کرتا اور ان کی تمام ضروریات پوری کرتا۔ ملزم حسنین سے وہ از حد پیار اور اس کی فرمائشیں پوری کرتا تھا ایک عام ڈرائیور ہوتے ہوئے اس نے اس کے ٹک ٹاک کے شوق کو دیکھتے ہوئے اور اس کی فرمائش اور ضد پر اسے 80 سے 90 ہزار کا مہنگا آئی فون لے کر دیا تھا وہ اپنے ڈرائیور دوستوں کو اس کی بنائی ہوئی ویڈیوز بہت فخر سے دکھاتا کہ دیکھو میرا بیٹا کتنا خوبصورت اور کیسی کیسی ویڈیوز بنا رہا ہے اور عوام اسے پسند بھی کرتے ہیں۔ وہ تو صرف یہ چاہتا تھا کہ میرا لاڈلا لختِ جگر بُری صحبت کا شکار نہ ہو کیونکہ چھوٹا سا گاؤں ہونے کے باعث اس کے عزیز و اقارب اور دوست احباب اس کی غیر موجودگی میں حسنین کی سرگرمیوں سے اسے آگاہ کرتے رہتے تھے جس پر اس کا متفکر ہونا اور غصہ میںآنا بالکل بجا اور فطری امر تھا۔
سولہ سالہ حسنین کے ہاتھوں باپ کا قتل اور ماں کا زخمی ہونا ہمارے معاشرتی اور سماجی ڈھانچے کے بُری طرح انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ باپ کا روزی روٹی کے لئے گھر سے دور ہونا، نو عمری میں ٹک ٹاک کا شوق، پولیس سے دوستی اور ان کی مہربانیاں، مہنگے موبائل، بُری صحبت اور آزادانہ گھومنا پھرنا یہ سب بڑی وجوہات ہیں۔ اس خطرناک عمر میں بااثر اور اپنے سے طاقتور افراد سے دوستی دماغی توازن اور اچھے بُرے کی پہچان کھو دیتی ہے۔ اس کیس کو ’’پب جی‘‘ جیسی گیمز سے نہیں جوڑا جاسکتا کیونکہ باپ تو اس کی وڈیوز اپنے ٹیکسی ڈرائیور دوستوں کو فخر سے دکھاتا تھا۔ وہ کوئی آئس وغیرہ کا نشہ یا ڈرگز استعمال نہیں کر رہا تھا۔
اس اندوہناک سانحہ کے علاقائی اور معاشرتی اقدار پر دوررس اثرات مرتب ہونگے۔ نو عمری، ناپختہ ذہن، جذباتگی،کم تعلیم، پسماندگی، معاشرتی، بے راہ روی اور اس پر سوشل میڈیا کے تباہ کن اثرات ان سب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علاقہ کے نوجوانوں میں ملزم کا یہ ظالمانہ فعل اس کے کم عمری پُرکشش اور معصوم چہرے کی چمک کے سامنے ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا قانون بھی کمسن مجرموں کو رعایت دیتا ہے۔ حسنین کی بدنصیب ماں جو اپنا شوہر کھو چکی ہے بیٹے کو زندگی بھر سلاخوں کے پیچھے کب دیکھ سکتی ہے وہ صحت یاب ہو کر اپنے مجازی خدا کی لحد پر صرف اشکوں کے ہار ہی پرو سکتی ہے۔ وہ اور اس کے چچا، ماموں اسے معاف کر دیں گے اور وہ صاف بری ہو کر گھر آجائے گا لیکن صحن کے آنگن میں باپ کی گھنی سایہ دار چھاؤں کو کبھی نہ پائے گا۔ خار زار ہستی کی تپتی اور سلگا دینے والی پگڈنڈی اس کے نرم و نازک پاؤں کو خون میں نہلا دے گی جس اعتماد اور ندامت کے بغیر وہ کیمروں کے سامنے المناک سانحہ کی تفصیلات بتا رہا ہے۔ کیا بظاہر نہ ٹوٹنے والا بھرم اس وقت تک قائم رہ پائے گا؟
٭٭٭٭٭