اساں لکھ سجناں ول پائیاں چٹھیاں درداں دیاں
آپ کسی بھی شہر کی کچہری سے تانگہ یا جدید عوامی سواری چاند گاڑی پر بیٹھیںتو پاس بیٹھی سواری اک دوسرے کو یہ ضرور بتاتی سنائی دے گی، ’آج پھر تاریخ پڑ گئی ہے ‘۔ یہ عدالتوں میں بار بار تاریخیں کیوں پڑتی ہیں ؟ انصاف ڈھونڈتے ہماری تیسری نسل کچہری خاک چھاننے کیوں پہنچ جاتی ہے ؟ یہ پہلا سوال ہے۔ اردو ادب پر حضرت حمید نظامی کا بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے انگریزی کے مقرر جسٹس کیانی کو اردو میں تقریریں کرنے پر قائل کر لیا۔ اب ان کی تقاریر کا یہ مجموعہ اردو ادب کا عظیم اثاثہ ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں، ’ایک دفعہ جب میں سینئر جج تھا ۔ ایک شخص کا مقدمہ زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوا تو اس نے کہاکہ یہ عدالت تو نہ ہوئی۔ میں نے تلخی سے جواب دیا، ’کون کہتا ہے کہ یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے ، یہ تو کچہری ہے، ‘اور میری ساری عدالتی زندگی اسی عدالت اور کچہری میں توازن قائم کرنے میں صرف ہوتی ہے ‘۔ ایسا کیوں ہے ؟
اب پنجاب پولیس کے سابق آئی جی راﺅ رشید کی زبانی ایک واقعہ سنیں ۔ لکھتے ہیں، ’میں اے ایس پی تھا۔کسی جگہ دورے پر جار ہا تھا ۔ دوسرے گھوڑے پر میرے ساتھ ایک حوالدارتھا۔ راستے میں مجھے پیاس محسوس ہوئی ۔ میں نے حوالدار کو بتایا ۔ اس نے راستہ میں ایک خانہ بدوشوں کی بستی کا رخ کیا اور درشت لہجے میں انھیں پانی کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔ان بیچاروں نے ایک سلور کا برتن نکالا اور اسے اچھی طرح ریت سے مانجھ کر صاف کیا ۔ اب ہمیں اس برتن میں پانی پیش کیا گیا۔ پہلے میں نے اس پانی سے اپنی پیاس بجھائی پھر حوالدار پانی پینے لگا۔ پانی پی کر حوالدار نے وہ برتن اس خانہ بدوش کے منہ پر دے مارااور ہم وہاں سے چلتے بنے ۔ مجھے اس کا یہ رویہ کچھ عجیب سا لگا۔میں نے حوالدار سے پوچھا ، یہ سب کیا ہے ؟ اول تو ہم پر لازم تھا کہ ہم ان بھلے مانسوں کا پانی پلانے پر شکریہ ادا کرتے ۔ اگر یہ ممکن نہ تھا تو کم از کم ان کا برتن ہی شائستگی سے واپس کر دیتے لیکن ہم نے ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کر کے کچھ اچھا نہیں کیا۔ حوالدار بولا، سرکار ! ان کادماغ ٹھکانے پر رکھنا ضروری ہے ۔ اگر ہم ان سے مناسب رویہ رکھتے تو ان کے دماغ میں یہ فتور آنا لازم تھا کہ ہم نے انھیں پانی پلا کر ان پر کوئی احسان کیا ہے ۔ یہ بھی اک سلگتا سوال ہے کہ پولیس کا ہمارے ساتھ یہ غیر مناسب رویہ کیوں ہے ؟ پھر قانون کی حکمرانی اور قانون دانوں کی حکمرانی میں دن رات کا فرق ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے نظام عدل سے ابھی تک بمشکل تمام تھوڑی بہت قانون دانوں کی حکمرانی ہی قائم کر پائے ہیں؟ یہ حکمرانی وہ صرف اپنے طبقے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔
کالم نگار آصف محمود قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون پڑھاتے ہیں اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ان کی کتاب ’پس قانون: پاکستانی قانون پر برطانوی نو آبادیاتی اثرات‘ میں ان تمام تکلیف دہ سوالوں کے شافی جواب موجود ہیں۔ حضرت مہر علی شاہ گولڑہ شریف والوں کی اک غزل کا مصرعہ ہے©: ’اساں لِکھ سجناں ول پائیاں چٹھیاں درداں دیاں ‘۔ آپ ان کی اس کتاب کو درد مند دل رکھنے والے ایک پاکستانی کی قوم کے نام اک چٹھی بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انھوں نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ ہمارا پولیس اور عدالتی نظام آزاد شہریوں کے لیے تھا ہی نہیں۔ یہ محکوم اور غلام رعایا کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں کہیں اصلاح احوال یا انصاف نہیں تھا۔ اس بندوبست کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ اس رعایا کو ایسے قانون کے ڈنڈے سے ہانکا جائے اور ایسی دلدل میں اتاردیا جائے کہ اس کے ہوش ٹھکانے آجائیںاور آئندہ یہ کسی بغاوت تو کیا سر اٹھانے کا بھی نہ سوچے ۔
نظامِ قانون کا اہم جزو پولیس ہے ۔ آزادی کے 75برس بعد بھی ہماری پولیس اسی ڈھانچے اور ضابطے کے تحت کام کر رہی ہے جو 1857ءکی جنگ آزادی کچلنے کے تین سال بعد برطانیہ نے اس سوچ کے تحت قائم کیا تھا کہ آئندہ یہاں کسی کو سراٹھانے کی ہمت نہ ہو۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جب معاملات ایسٹ انڈیا کمپنی سے سلطنت برطانیہ نے براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیے تو 1860ءمیں ایک پولیس کمیشن بنایا گیا۔اس کی سفارشات کی روشنی میں 1861ءمیں پولیس ایکٹ نافذ کیا گیا ۔پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر آج بھی وہ’ اعلانِ مسرت‘موجود ہے کہ ہم وہی پولیس ہیں جس کی بنیاد 1861ءمیں رکھی گئی تھی ۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام کی یہ پولیس رائل آئرش کنسٹیبلری کی طرز پر قائم کی گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف بھی پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر موجود ہے کہ سرچارلس نیپئر نے آئرش کنسٹیبلری سے متاثر ہو کر ہندوستانی پولیس کا یہ ڈھانچہ استوار کیا تھا۔ آئرش کنسٹیبلری میں بھی رینک کنسٹیبل سے شروع ہو کر آئی جی تک جاتا ہے ۔
اس سے پہلے مغلوں کے پولیس کے نظام میں کوتوال کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ تجسس میں پڑا رہے کہ لوگ اپنے گھروں میں کیا کرتے ہیں؟ دوسری اہم بات 1560ءمیں اکبر بادشاہ اپنے کوتوال کو جو تنخواہ دیتے تھے وہ 1900ءمیں برطانوی پولیس کے آئی جی کی تنخواہ سے ساڑھے تین سو فیصد زیادہ تھی۔ برطانیہ کی اپنی پولیس نوآبادیات کی پولیس سے بالکل مختلف تھی بلکہ یہ اعتراف انگریز مصنفین نے کیا ہے کہ جس مغل نظام کو ہم نے ختم کیا وہ اس نظام سے ملتا جلتا تھا جسے کنگ الفریڈ نے برطانیہ میں قائم کیا تھا۔ ہم اپنی کچہریوں میں آج بھی وہ انداز غلامی ختم نہیں کر سکے جو انگریز راج کی دین ہے ۔ انصاف مانگنے والے کو آج بھی سائل لکھاجاتا ہے ۔ یہ سائل آج بھی عرض گذار ہے۔ صدیوں کا عجزسماج کی رگوں میں یوں دوڑتا پھرتا ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے بھی جاتا ہے تو ایسے انداز سے التجا کرتا پایا جاتا ہے جو اسلامی اقدار اور شرف انسانی سے فرو تر ہے ۔ یہ تمام قوانین اور ضابطے ہم پاکستانیوں نے نہیں بنائے، یہ ہم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ مسلط کرنے والے انگریز فاتحین تھے ۔ وہ ہم میں آزادی حاصل کرنے کی تڑپ تک ختم کرنا چاہتے تھے ۔ ہمارا نظام پولیس اور عدل ہماری پارلیمان کی فعالیت ہی نہیں افادیت پر بھی سوال اٹھاتا ہے ۔ کسی ایک آدھ کو چھو ڑ کر ہمارے ممبران پارلیمنٹ کی علمی سطح کا یہ عالم ہے کہ وہ قانون، آئین اور ریاست و حکومت میں فرق ہی نہیں جانتے ۔
٭....٭....٭