مکوڑوں کی فریاد!!!!!!
مدثر جمیل نوائے وقت کے قاری ہیں۔ سائرن پڑھتے رہتے ہیں انہوں نے جو کچھ لکھ کر بھیجا ہے وہ نذر قارئین ہے۔
اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔آپکا کالم تقریباً روزانہ نظر سے گزرتا ہے جناب عالی مملکت پاکستان میں ہم کیڑے مکوڑوں کی بھی فریاد سن لی جائے جو ہاتھیوں کی لڑائی میں پس پس کر پاوڈر بن گئے ہیں مگر پھر بھی اللہ پاک کے فضل و کرم سے زندہ ہیں۔13 مارچ کی صبح 8 بجے ریلوے ہیڈ کوارٹر ٹکٹ ریزرویشن کے لئے گھر سے روانہ ہوا کوئی چوک ایسا نہیں تھا جس پر کنٹینر نہ لگا ہوا ہو۔بعد میں معلوم ہوا کہ دوپہر دو بجے خان صاحب کی انتخابی ریلی ہے جبکہ سڑکیں صبح آٹھ بجے ہی بند کر دی گئیں۔دفتروں کو جانیوالے کام پر جانیوالے اور بچوں کو سکول لے کر جانیوالے کتنے پریشان ہوں اس کا اندازہ ہم کیڑے مکوڑے ہی کر سکتے ہیں۔ ایک گھنٹہ سڑکوں پر خوارہو کر پٹرول برباد کر کے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے گھر واپس آ گیا۔جناب ہم کیڑے مکوڑے ہی تو ہیں جو اپنی پرانی موٹر سائیکل کو ہی اپنی متاعِ جاں سمجھتے ہیں اسی لئے تو جب کسی کا دل کرتا ہے ہم کو کہیں بھی روک کر چالان کر سکتا ہے۔پاکستان میں بلاشبہ لاکھوں کی تعداد میں کاریں ہیں مگر ڈرائیونگ لائسنس کتنوں کے ہیں۔کیا ان کو کبھی کسی نے روکا ہے۔75 لاکھ کی گاڑی میں بھی وہی پٹرول جلتا ہے جو ہم کیڑے مکوڑوں کی پھٹیچر موٹر سائیکل میں جلتا ہے۔کیڑوں مکوڑوں کو فرمایا جاتا ہے کہ گیزر چلانا عیاشی ہے اور گیس آتی بھی نہیں۔اشرافیہ کے پاکستان میں گیزر بھی چوبیس گھنٹے چلتا ہے اور گیس بھی نہیں جاتی۔ہم کیڑے مکوڑے سارا دن محنت کرتے ہیں رات کو تھک کر سو جاتے ہیں۔اور شاید اشرافیہ کو آٹے کے تھیلے کی قیمت کا بھی پتہ نہیں ہو گا۔جناب عالی زندگی گزارنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔شناختی کارڈ بنانا ہو یا پاسپورٹ غرض کہ ہر شعبے میں ہم کیڑے مکوڑے ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے اپنا کام کر کے چلے بھی جاتے ہیں۔اپ اپنے کالموں میں جن باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں قابل ستائش تو ہیں مگر ان پر عمل کون کرے گا۔میرٹ کی کسوٹی پر کون اپنے آپ کو پرکھے گا۔کوئی بھی نہیں جناب کیڑے مکوڑوں کی زندگی آسان کیجئے جناب۔رمضان میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا کن کو ملے گا۔مفت آٹا تقسیم کرنے کے لئے کون کہتاہے۔ دو ہزار اٹھارہ کی قیمت پر آٹا ہر کسی کو ملے تاکہ سکون کا سانس آئے۔خواہ رمضان میں ہی سہی۔پھل پہنچ سے باہر ابھی سے ہی ہو گئے ہیں پوچھنے والا کوئی بھی نہیں۔پرائس کنٹرول کمیٹی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔سیاسی میدان میں برداشت اور رواداری ختم ہو گئی ہے۔ اپنا لیڈر اپنی جماعت ہر کسی کے لئے باعث فخر ہے مگر دوسروں کو برداشت کرنے کا مادہ ختم ہو گیا۔ہم کیڑے مکوڑوں نے آپس میں فضول بحث کر کر کے اپنی دوستیاں اپنے رشتے برباد کر دئیے اور جن کی خاطر بحث و تکرار کرتے رہے ان کو کوئی بھی فرق نہیں پڑا اور ناں ہی کبھی پڑے گا۔بس ہم آپس میں لڑتے رہیں گے۔ہم اپنے آپ کو کب پہچانیں گے۔اچھا کام کسی نے بھی شروع کیا ہو اسکی تعریف کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہو گی۔ سستے پٹرول کے لئے ہونا تو یہ چاہئیے کہ ہر پٹرول پمپ پر ایک پوائنٹ ایسا ہو جس پر صرف موٹر سائیکل سوار ہی پٹرول ڈلوا سکے۔اور یہ سہولت صرف موٹر سائیکلوں کے لئے ہو۔50 لاکھ کی گاڑی والے کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پٹرول کتنے روپیہ لیٹر ہے۔ہم کیڑے مکوڑوں کی آدھی تنخواہ تو پٹرول اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کرتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کرائے کے گھروں میں رہنے والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ بچوں کی فرمائشوں کے آگے والدین بے بس ہو جاتے ہیں۔رہی سہی کسر موبائل نے نکال دی ہے جو زہریلے نشے کی مانند نئی نسل کی صحت کو کھا رہا ہے۔ہر دوسرے بچے کی نظر کمزور ہو رہی ہے۔والدین خود موبائل میں کھوئے ہوئے ہیں۔اپنے آپ کو بدلنے کے لیے ہمیں خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہو گا، معاف کرنا سیکھنا ہو گا، قناعت سے سادہ زندگی گزارنا سمجھنا ہو گا۔جناب پتہ نہیں آپ متفق ہوتے ہیں کہ نہیں مگر اس کیڑے مکوڑے کی باتوں پر غور ضرور فرمائیے گا۔اللہ حافظ
مدثر جمیل نے سادہ الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ میں تو اس حوالے سے لکھتا ہی رہتا ہوں تاکہ عوامی مسائل کو زیادہ سے زیادہ سامنے لایا جائے، حکمرانوں کو بتایا جائے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے کوئی نہیں جو عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔ لوگ سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ کوئی گرفتار کرنا چاہتا ہے کوئی گرفتاری دینانہیں چاہتا۔ سڑکیں بند ہیں، کسی کو راستہ نہیں مل رہا اور جس سیاسی قیادت نے فیصلے کرنے ہی وہ بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ ان حالات میں ایک عام پاکستانی ایسے ہی سوچ سکتا ہے۔
گذشتہ دو روز سے جو کچھ زمان پارک میں ہو رہا ہے اس نے ہماری سیاسی سمجھ بوجھ کو بہرحال بے نقاب کر دیا ہے۔ سیاسی قیادت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آمنے سامنے لے آئی ہے اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو گی۔ جو بھی ہو رہا ہے اس مشق کے مستقبل میں بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ یہ خالصتا قانونی معاملہ ہے اور اسے قانون کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ قانون نے اپنا راستہ بنایا ہے تو سب کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ جب آپکی حکومت ہوتی ہے تو آپ سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتے ہیں اور جب آپکی حکومت نہیں ہوتی تو آپ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کوئی غیر معمولی کام نہیں ہے۔ کل آپ کے حکم پر سب کچھ ہوتا تھا آج کسی اور کا حکم چل رہا ہے اسے برداشت کریں اور سبق سیکھیں جو لوگ آج حکم جاری کر رہے ہیں وہ بھی آنے والے کل کو یاد رکھیں۔