محب وطن ہو مگر ہو سادہ
تہمت لگا کے ماں پر جو اوروں سے داد لے ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
کالم کا آغاز آج اپنے ایک انتہائی پسندیدہ شعر سے اس لیے بھی کرنے جا رہا ہوں کہ اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران وطن عزیز کے تیزی سے بدلتے سیاسی اور اقتصادی حالات، افسر شاہی کے نازنخرے اور قومی عزت و وقار کو داﺅ پر لگانے والے وہ وطن فروش پراگندہ چہرے بھی اس مرتبہ دیکھنے کو ملے جو وطن کے استحکام کو تباہ کرنے کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس دورے کے دوران مختلف سرکاری اور نیم سرکاری شخصیات سے ہونے والی رسمی اور غیررسمی ملاقاتوں کے بعد یہ سوچنے پر مجبور رہا کہ جس ملک کی بنیاد لاالہ الااللہ پر رکھی گئی، جس ملک کی بیوروکریسی کو عوام کی بے لوث خدمت پر مامور کیا گیا، جس ملک کی قومی زبان اردو کو مختصر ترین عرصہ میں بطور سرکاری دفتری زبان نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس ملک سے غربت، بھوک، افلاس، رشوت، سفارش، بے روزگاری اور اقربا پروری کے خاتمہ سمیت انصاف و قانون کی بالادستی اور غریب و مجبور افراد کی عزت نفس کے تحفظ کا عہد کیا، جس سرزمین پر بسنے والے نابیناﺅں، معذوروں، گداگروں اور عمر رسیدہ افراد کی خوشحالی اور انھیں مفت علاج کی سہولیات فراہم کرنے کا ریاست نے ان سے وعدہ کیا، کیا وجہ کہ آزادی کے 76 برس گزرنے کے باوجود اس ملک کے حالات تبدیل نہیں ہوئے؟
ملک کے ان غیرمستحکم معاشی، سیاسی اور اقتصادی ڈاﺅن فال حالات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے میں نے اپنے بیشتر قومی اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ’چھوٹے بڑے صابوں‘ سے غیررسمی ملاقاتیں بھی کیں مگر یہاں بھی میں یہ سوچنے پر مجبور رہا کہ پولیس کا فرض اگر عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور محکمہ مال کے پٹواری، گرداور، قانون گو اور تحصیلدار فرد اراضی کے حصول اور انتقال اراضی جاری کرنے کے لیے سرکاری فیس کی ادائیگی جب لازم ہے تو مذکورہ دستاویز پر سرکاری فیس کا نمایاں طور پر اندراج کیوں نہیں؟ اپنی اس سوچ کا ذکر میں نے جب اپنے ایک قانون کے محافظ دوست سے کیا تو اس نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ تمھاری صحافت اور کالم نگاری چونکہ انگلستان اور دولت مشترکہ کے ایوانوں کے اردگرد گھومتی ہے اس لیے اپنے آبائی وطن میں بھی تم وہی کچھ دیکھنا چاہتے ہو جو برطانیہ میں ایک عام محنت کش، بے روزگار، معذور اور کم آمدنی والا شخص روزانہ دیکھتا ہے۔ محسوس نہ کرنا، تمھاری حب الوطنی، فکر و سوچ اور ایک عام شہری کی معاشی حالت بدلنے کے لیے تمہاری تحریروں میں دیے گئے مشورے کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔ ملک کے جس سیاسی و معاشی بحران پر تم فکرمندی کا اظہار کر رہے ہو، پولیس کی اصلاح اور محکمہ مال کی دستاویز کی جن سرکاری فیسوں کا تم رونا رو رہے ہو، مجھے بھی اس کا خوب ادراک ہے مگر میرے کالم نگار دوست! یہ تم بھی اچھی طرح بلکہ بہت ہی اچھی طرح جانتے ہو کہ آپ کے انگریز کا دیا یہ 76 سالہ نظام آج بھی جوں کا توں ہے۔ تم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم یہاں سی ایس ایس کیوں کرتے ہیں؟ اس بات سے بھی باخبر ہو کہ جی او آر کو بڑے انجن والی گاڑیاں اور ملازم کیوں مہیا کیے جاتے ہیں؟ تمھیں یہ بھی معلوم ہے کہ آزادی وطن کے باوجود ہمارے ہاں عام بول چال میں سر کا ہنوز کیوں خاتمہ نہیں ہو سکا؟ تم ملک کو خوشحال اور اس ملک کے سبز پاسپورٹ کی مغربی دنیا میں عزت و توقیر بھی دیکھنا چاہتے ہو، تمھاری طرح ہر شہری کی یہ خواہشات ہیں مگر تمھیں اب میں یہ کسے بتاﺅں کہ پاکستان کے قومی اداروں میں کام کرنے والا ہر اہلکار اور بیوروکریٹ افسر کرپٹ نہیں۔ اللہ والوں، فرض شناس، نیک نام اور عوام کی خدمت کرنے والوں کی بھی یہاں کمی نہیں۔ رکاوٹ اگر ہے تو وہ یہاں صبح شام بولے جانے والے جھوٹ، منافقت اور کمزور جمہوری اقدار کی وہ غیریقینی صورتحال ہے جس نے ملک کے ہر شہری کو مشکوک بنا رکھا ہے۔ میرے اس بااختیار دوست کی گفتگو برائے گورننس واقعی متاثر کن تھی۔ پولیس اصلاحات سمیت وہ دیگر محکموں اور اداروں کے منفی پہلوﺅں پر بھی مجھے اعتماد میں لینا چاہ رہا تھا مگر ملک میں لاءاینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال پر میں اس سے متفق اس لیے بھی نہیں تھا کہ دیہی علاقوں میں تعینات ایس ایچ اوز اور پٹواری آج بھی بے تاج بادشاہ تصور کیے جاتے ہیں۔
ملک کی شرمناک سیاسی صورتحال پر بھی دل خون کے آنسو رو دیا۔ غریب دیہاڑی دار اپنی غربت کا واسطہ دیتا نظر آیا جبکہ کولیشن حکومت اپنی سیاسی لڑائیاں لڑتے نظر آئی۔ بزنس مین اور سرمایہ کار دونوں فکرمند نظر آئے۔ سرمایہ کار اس خوف میں مبتلا ہے کہ بڑے پیمانے پر کی گئی اس کی سرمایہ کاری کل کہیں ڈوب نہ جائے۔ بے یقینی کی یہی کیفیت بینکوں میں جمع رقوم نکلوانے والے صارفین میں بھی دیکھی۔ ایک ایسے قانون دان سے بھی ملاقات ہوئی جو دوران گفتگو اپنے ہر نئے فقرے کے آغاز سے قبل ’میں خود ایک وکیل ہوں‘ کے الفاظ تواتر سے استعمال کرتے رہے۔ ان کے اس عمل سے مجھے اکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے ان سے جب یہ استفسار کیا کہ ملک کی سب سے بڑی معزز عدالت چند ہفتے بعد انتخابات کروانے کا حکم صادر کر چکی ہے، پھر کیا وجہ کہ عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا؟ کیا یہ عدالت عظمیٰ کی توہین نہیں؟ تو اس قانون دان نے جواب دیا وہ یہ تھا کہ ریاست پاکستان میں عدل و انصاف کے میعار کو اگر ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی روشنی میں دیکھیں تو عدل و انصاف کے حوالہ سے دنیا کے 140 ممالک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان 129ویں نمبر پر ہے، اندازہ آپ خود لگالیں۔