ریاستی اتھارٹی کہاں ہے؟
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے گھر زمان پارک کے باہر گزشتہ دو روز تک پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس و رینجرز کے مابین جھڑپوں اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کے رونما ہونیوالے افسوسناک واقعات اور پولیس کی عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکامی نے ریاستی اتھارٹی اور قانون و انصاف کی عملداری پر جو سوالیہ نشان لگائے ہیں‘ انکے ریاستی اتھارٹی کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں ملک میں جنگل کے قانون کا گمان غالب ہو سکتا ہے اور معاشرے کا کوئی بھی طبقہ یا افراد جتھہ بند ہو کر ریاستی اتھارٹی کو پامال کرتے ہوئے ملک و معاشرت کیخلاف اپنے مفادات و مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ اور ایک خاتون جج کیخلاف دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرنے کے مقدمات میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں انکے پیش ہونے سے مسلسل گریز پر عدالت کی جانب سے انکے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے اور اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی گئی کہ عمران خان کو گرفتار کرکے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ان احکام کی تعمیل کرتے ہوئے ڈی آئی جی اسلام آباد شہزاد بخاری کی معیت میں اسلام آباد پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے زمان پارک لاہور آئی تو اسے وہاں موجود پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے کارکنوں کے اس ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے ان پر وقفے وقفے سے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا اور جہاں ضرورت پڑی وہاں لاٹھی چارج بھی کیا۔ مگر پی ٹی آئی کارکن منظم اور ڈنڈوں‘ پتھروں سے مسلح ہو کر پولیس پر جوابی حملے کرتے رہے۔ ان جھڑپوں کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد سمیت متعدد پولیس اہلکار اور پی ٹی آئی کے کئی کارکن بھی زخمی ہوئے پولیس نے دو درجن کے قریب پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار بھی کیا اور آنسو گیس کے شیل عمران خان کے گھر کے اندر بھی پھینکے مگر پی ٹی آئی کارکن پولیس کیخلاف ڈٹے رہے جبکہ اسی دوران ملک بھر سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے قافلے بھی زمان پارک پہنچنا شروع ہو گئے جنہیں عمران خان نے خود اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے گھروں سے باہر نکلنے اور زمان پارک پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔
پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے مابین جھڑپوں کا افسوسناک سلسلہ دن بھر اور رات گئے تک جاری رہا تاہم پولیس اگلے روز بھی عمران خان کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی جبکہ ان واقعات کے باعث نہ صرف شہر کا ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا بلکہ آمدورفت میں رکاوٹ پیدا ہونے کے باعث شہریوں کی زندگیاں بھی اجیرن بنیں اور پی ٹی آئی کارکنوں کے وقفے وقفے سے ہوینوالے سخت پتھراﺅ کے باعث سرکاری اور نجی گاڑیوں اور قرب و جوار کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بدھ کے روز پی ٹی آئی کے کارکنوں کو منتشر کرنے اور امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کیلئے رینجرز کی خدمات حاصل کی گئیں مگر پی ٹی آئی کارکن اسکے بھی مدمقابل آگئے جس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی قیادت کی ہدایت پر پی ٹی آئی کارکن سکیورٹی اداروں اور انتظامیہ پر باقاعدہ حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرکے آئے تھے جن کے ہاتھوں میں پہلے سے ہی ڈنڈے‘ پتھر اور غلیلیں موجود تھی۔ بادی النظر میں پی ٹی آئی کارکنوں کو مسلح ہو کر زمان پارک میں منظم ہونے کا موقع انتظامی مشینری کی گومگو کی پالیسی کے باعث ہی ملا جبکہ اس سے ریاستی اتھارٹی کا تصور ہی غارت ہو گیا۔
بدھ کی علی الصبح لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشتیاق احمد خان بھی متعدد وکلاءکو ساتھ لے کر زمان پارک آگئے اور عمران خان سے ملاقات کی۔ اس دوران عمران خان نے ایک بیان حلفی لکھ کر بار کے صدر کے حوالے کیا جس میں اس امر کی یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ 18 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں خود پیش ہو جائیں گے۔ اسی دوران وارنٹ گرفتاری کی منسوخی کیلئے عمران خان کی درخواست بھی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو سماعت ہوئی۔ دو دن کی اس ایکسرسائز میں عمران خان کو گزند تک نہ پہنچی اور وہ گھر میں بیٹھ کر ویڈیو پیغام کے ذریعے پی ٹی آئی قائدین اور کارکنوں کو ہدایات بھی جاری کرتے رہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کے باعث ملک بھر سے پی ٹی آئی کارکنوں کو زمان پارک آنے اور پولیس و رینجرز پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کیا گیا جبکہ اس سے ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا تاثر اجاگر ہوا۔
پولیس اور انتظامیہ کو یقیناً اس امر سے آگاہی حاصل تھی کہ پی ٹی آئی کارکن ڈنڈوں اور پتھروں سے مسلح ہو کر گزشتہ کئی روز سے زمان پارک کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جو عمران خان کی اعلان کردہ ریلی کے روز بھی پولیس پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ اسکے باوجود عمران خان کی پی ٹی آئی کارکنوں کی موجودگی میں دن کے وقت گرفتاری کی حکمت عملی طے کی گئی جس سے پی ٹی آئی کارکنوں کا اشتعال میں آنا اور مزاحمت کرنا فطری عمل تھا۔ اس طرح پولیس کو عمران خان کی گرفتاری میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے کارکنوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے جبکہ عمران خان کی کال پر ملک کے دوسرے حصوں سے بھی پی ٹی آئی کارکن مسلح ہو کر زمان پارک آنا شروع ہو گئے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران کہا کہ عمران خان گرفتاری کا حکم حکومت نے نہیں دیا بلکہ عدالتی احکام کی تعمیل میں انکی گرفتاری کی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اگر اسکے باوجود عمران خان کے گھر سے انکی گرفتاری ممکن نہیں ہو سکی تو اس سے ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا ہی تاثر پیدا نہیں ہوا بلکہ عدل گستری کے مو¿ثر ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔
یہ صورتحال ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی عملداری اور ریاستی اتھارٹی کے بالاتر ہونے کے معاملہ میں انتہائی تشویشناک ہے جس کے ملک کی سیاست و معاشرت کیلئے ہی نہیں‘ ملک کی سلامتی کے حوالے سے بھی انتہائی مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کسی سے ریاستی اتھارٹی تسلیم کرانا بہرحال حکومت اور اسکی متعلقہ مشینری کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ گزشتہ دو روز کے واقعات سسٹم کے حوالے سے عوام کی مایوسی بڑھانے کا باعث بنے ہیں۔