• news

وزیراعظم شہبازشریف کا دورہ قطر اور دوحہ پلان!


گذشتہ ہفتے کے وسط میں قطر میں دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا ۔ جس کا انتظام اقوام متحدہ نے کیا تھا۔ اقوام متحدہ کانفرنسیں کرنے میں اپنا نام پیدا کرچکی ہے ۔پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے بھی دو عالمی ڈونرزکانفرنسیں ہوچکی ہیں۔ جن میں پاکستان کی امداد کے لئے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کئے گئے ۔ مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان وعدوں پر عمل کب ہوگا۔ بہرحال اقوام متحدہ کا یہ کردار تو لائق ستائش ہے کہ انسانیت کو درپیش سنگین مسائل کو سامنے لایا جاتا ہے اور اقوام ِعالم کی آگاہی کے لئے یہ کانفرنسیں بڑی سود مند ثابت ہوتی ہیں۔ قطر کی دو روزہ کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کم ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی کے اقدام دوحہ پلان آف ایکشن پر عملدرآمد کے لئے پرعزم ہے، کم ترقی یافتہ ممالک کے عوام کی ترقی کےلئے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے،کم ترقی یافتہ ممالک کےلئے بیرونی قرضوں کی شرائط کومزید آسان تر کیا جائے، عوام کو سماجی تحفظ کی فراہمی اور جدید ٹیکنالوجی تک آسان رسائی یقینی بنائی جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے دوحہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کانفرنس کے انعقاد کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے قطرکی طرف سے اس کانفرنس کے انعقاد کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر خوشحالی کے لئے ترقی یافتہ ممالک نجی شعبہ اور سول سوسائٹی کی کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ شراکت داری نمایاں ہے۔جہاں عالمی مدد کی زیادہ ضرورت ہے وہاں پر پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ کم ترقی یافتہ ممالک میں صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری اور ایجنڈا 2030 پر عملدرآمد اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے کہاکہ کئی کم ترقی یافتہ ممالک کوبیرونی قرضوں کے باعث خطرات کاسامنا ہے۔ پاکستان اورقطر کے مابین دیرینہ خوشگوارتعلقات استوار ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک کی پائیدارترقی کےلئے کانفرنس کا انعقاد بروقت ہے۔باالخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے کم ترقی یافتہ ملکوں کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے، ہمیں مل کر کم ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی ترقی کےلئے اقدامات کرنا ہوں گے،پوری دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو غربت اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سماجی اوراقتصادی ترقی کےلئے اس فورم کی بھرپور حمایت کرتا ہے، پاکستان اس فورم سمیت تمام اہم فورمز پر کم ترقی یافتہ ملکوں کی آوازکو اجاگرکرتا رہے گا۔ ا نہوں نے کم ترقی یافتہ ممالک کےلئے ویکسین کی فراہمی کو تسلسل کے ساتھ یقینی بنانے پر زوردیا اور کہا کہ 6 کم ترقی یافتہ ممالک کو بہت زیادہ بوجھ کاسامناکرنا پڑ رہا ہے جو کہ بہت تشویشناک ہے ۔ انہوں نے تجویز دی کہ کم ترقی یافتہ ممالک کےلئے قرض کی شرائط کو آسان کرنا چا ہئے اور عوام کو سماجی تحفظ کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے۔ انہوں نے کم ترقی یافتہ ممالک کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی آسان بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی اورعلم ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے دوحہ پلان آف ایکشن 2030 کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان دوحہ پروگرام آف ایکشن کے نفاذ کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور اس سلسلے میں متحرک کردار ادا کرے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ اس پروگرام کے اہداف کے حصول کےلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے فیفامقابلوں کے انعقاد کے بعددوحہ کانفرنس کے شاندار انتظامات پر امیر قطر کو مبارکباد دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے تمام ممالک یکساں حیثیت کے مالک نہیں ، ایک طرف امیر ممالک ہیں ، جہاں دولت کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کرونا کی عالمی وبا میں ان ممالک نے بڑی آسانی سے اپنے شہریوں کی کفالت کی اور گھربیٹھے ان کے اکاﺅنٹس ہزاروں ڈالر امدادی پروگرام کے تحت جمع کروائے ۔ لیکن دوسری طرف ،پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک بھی ہیں، جو اپنے غریب شہریوں کو ہر تین ماہ بعد 12ہزار روپے امداد دینے کے قابل ہیں۔مگر اس رقم سے غریبوں کے آنسو پونچھنا بھی ممکن نہیں ۔ تیسری دنیا کے ممالک میں نہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے ، نہ رہائش کے لئے چھت دستیاب ہے ، ان ممالک کے لوگوں کی اکثریت جھونپڑوں اور خیمہ بستیوں میں گذارہ کرنے پر مجبور ہے ۔ انہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں۔بیماری کی صورت میں علاج کی سہولت میسر نہیں آتی۔ بچوں اور بچیوں کی تعلیمی ضروریات کے لئے تو وسائل بہت دور کی بات ہے ۔ ان کی کئی نسلیں فٹ پاتھوں پر جنم لیتی اور وہیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ایک دور تھاجب ایک انسان ، دوسرے انسان کا خیال رکھتا تھا۔ غربت تو ہر دور میں تھی، لیکن کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا،کیونکہ ہمسائے میں جو کچھ پکا ہوتا ، وہ محلے میں تقسیم کردیا جاتا۔ پرانے دور کی بادشاہتیں قحط کی صورت میں اپنے خزانوں کے منہ عوام کیلئے کھول دیتی تھیں ۔ لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے تھے۔ بدحالی اس قدر عام نہیں تھی جو آج کے ترقی یافتہ دور میں نظر آتی ہے۔ 
اقوام متحدہ کی تشکیل کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ تمام ممالک کو ایک دوسرے سے مربوط کیا جائے ۔ ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے غریب عوام کے لئے ہمدردانہ کردار ادا کریں ۔ قطر کی حالیہ دو روزہ کانفرنس نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور غریب اور ترقی یافتہ امیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور ان کو ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ کرنا ممکن بنایا ہے ۔پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے دوحہ پروگرا م کی مکمل حمایت کرکے ثابت کیا ہے کہ پاکستان مہذب دنیا کا ایک ذمہ دار ملک ہے ۔ اسے کم ترقی یافتہ ممالک کے مسائل کا ادراک ہے ، اور وہ ان مسائل کے حل کیلئے ترقی یافتہ اقوام کو اپنا فرض یادکروارہا ہے ۔خدا کرے !ان عالمی کانفرنسوںکی باتیں جلد از جلد عملی روپ بھی دھاریں ۔ 

ای پیپر-دی نیشن