• news

 انتخابات اور روایتی الیکٹرانک میڈیا


ناظرین اور سامعین تک پیغام رسانی کے لیے کسی ایسے ذریعے کا استعمال کیا جائے جو برقی رو کا سہارا لے تو اسے الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے جن میں ٹیلیویژن، ریڈیو، ٹیلی فون، انٹرنیٹ، کمپیوٹرز اور موبائل فونز سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان گنت سماجی، سیاسی، نفسیاتی، تاریخی اور معاشی عوامل ہیں جو انتخابات میں کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کی کامیابی یا ناکامی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ روایتی الیکٹرانک میڈیا ان میں سب سے اہم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں زیادہ تر آبادی شہری حلقوں پر مشتمل ہوتی ہے، کارنر میٹنگز یا گھر گھر جاکر ووٹرز سے رابطہ کرنا آسان نہیں ہوتا وہاں الیکٹرانک میڈیا ہی وہ مو¿ثر آپشن ہے جس کے ذریعہ ووٹرز تک اپنی آواز اور تصویر دونوں پہنچائی جاسکتی ہیں۔ بہت تھوڑے وقت میں بہت ہی زیادہ لوگوں تک سیاسی پیغام پہنچانے کا بہترین، تیز ترین مگر مہنگا ترین ذریعہ الیکٹرانک میڈیا ہے۔
سیاست اور خصوصاً انتخابات میں الیکٹرانک میڈیا کے استعمال میں امریکا سرفہرست ہے۔ آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے امریکہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے پاس الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ پچاس ریاستوں پر مشتمل ملک میں کونہ کونہ پھرنا ممکن نہیں۔اسی لیے انتخابی امیدوار الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات کے موقع پر کئی درجن امیدوار میدان میں اترتے ہیں، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ کئی آزاد امیدوار بھی قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر امیدواروں کے ناموں سے بھی عام لوگ واقف نہیں ہوتے۔ یہ الیکٹرانک میڈیا ہے جو عام لوگوں کو ان امیدواروں سے متعارف کرواتا ہے۔ پرائمری انتخابات کا آغاز دو امریکی ریاستوں، آئیووا اور نیو ہیمپشائر، سے ہوتا ہے۔ پورے ملک کا الیکٹرانک میڈیا ان دو ریاستوں میں اپنا لاو¿ لشکر لے کر براجمان ہوجاتا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب الیکٹرانک میڈیا کے پنڈت یہ فیصلہ کرتے ہیںکہ ان امیدواروں میں سے کسے زیادہ کوریج یا پروجیکشن دینی ہے۔ اس میڈیا کوریج سے پہلے صدارتی امیدوار چھپے رستم ہوتے ہیں جنھیں کوئی نہیں جانتا، ان کے لیے Dark Horses کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے کچھ الیکٹرانک میڈیا کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار اس موقع پر پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں تاکہ میڈیا پر ان کو زیادہ سے زیادہ دکھایا جائے۔ میڈیا مالکان شروع شروع کے پرائمری انتخابات کے نتائج سے اندازہ لگالیتے ہیں کون کون سے امیدوار آئندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا میں اس کے لیے Media Hype کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ 
امریکا میں الیکٹرانک میڈیا نظریاتی طور پر منقسم ہے۔ آزاد خیال یعنی لبرل میڈیا جیسے کہ سی این این ہمیشہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کرتا ہے۔ اسی طرح قدامت پسند میڈیا چینلز جیسا کہ فاکس نیوز ہمیشہ ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کی مدد کرتا ہے۔ لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کی کامیابی یا ناکامی میں کتنا کردار ادا کرتا ہے اور کیسے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اور زیادہ مشکل ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس موضوع پر مناسب اور قابل اعتبار ڈیٹا کی کمی ہے۔ اس چیز سے قطع نظر کہ الیکٹرانک میڈیا کتنے فیصد کارگر ثابت ہوتا ہے، اس بات میں تو شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ آج کے اس جدید ڈیجیٹل دور میں کوئی سیاسی رہنما اور اس کی جماعت اپنے سیاسی بیانیہ کی کامیابی کا دعویٰ بغیر الیکٹرانک میڈیا کی مدد کے ہر گز نہیں کرسکتی۔
ایک سادہ سی مساوات ترتیب دی جاسکتی ہے، اگر یہ فرض کرلیں کہ ایک خاص قدر مقرر کی جاسکتی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا انتخابات میں کامیابی کے لیے دس میں سے دو فیصد تک مدد گار ہوسکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی مخالف سیاسی جماعت کم ازکم اتنا فائدہ تو اٹھا سکتی ہے۔ اب یہ اور بھی ضروری ہوگیا کہ اپنے سیاسی مخالف امیدوار یا سیاسی جماعت کے اس ایڈوانٹیج کو معتدل کیا جائے۔ گویا اگر مخالف سیاسی جماعت سو روپے میں سے تیس روپے الیکٹرانک میڈیا پر خرچ کرتی ہے تو آپ پر بھی لازم ہوگیا کہ آپ بھی کم ازکم تیس روپے تو ضرور خرچ کریں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے دیگر لوازمات یا تغیرات کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پیسہ خرچ کرنا، خصوصاً صحیح وقت کا انتخاب اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے درست سیاسی بیانیہ کی تشکیل وغیرہ۔ گویا الیکٹرانک میڈیا کا استعمال مسابقت کی بنیاد پر طے کرنا ہوگا، یعنی الیکٹرانک میڈیا سے جڑی تمام ترغیبات اور تغیرات میں اپنے مخالف سے دو قدم آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔
امریکا کی نسبت پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا زیادہ مہنگا نہیں۔ امریکی ٹیلیویژن پر چند سیکنڈ کی سیاسی تشہیر کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سیاسی کاروباری افراد کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا میں الیکٹرانک میڈیا کی تقسیم نظریاتی ہے، قدامت پسند اور آزاد خیال میڈیا اپنی پسند کے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کرتے ہیں۔ اربوں ڈالر کے مفادات بھی وابستہ ہوتے ہیں مگر پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نظریاتی کی بجائے ذاتی اور مفاداتی وجوہ کی بنا پر منقسم ہے۔ لگتا ہے کہ میڈیا کی یہ تقسیم آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ذاتی، سیاسی، اور مفاداتی وجوہ کے علاوہ اداراتی وجہ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے، ہمارے طاقتور ادارے الیکٹرانک میڈیا اور ان کے مالکان پر بہت گہرا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں امیدواروں اور سیاسی جماعتوں سے زیادہ طاقتور حلقوں کا کسی ایک طرف جھکاو¿ الیکٹرانک میڈیا کے واضح کردار کا تعین کرے گا۔
جہاں تک پاکستان کے مختلف سیاسی رہنماو¿ں اور ان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کے حوالے سے مقابلے کی فضا کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین الیکٹرانک میڈیا کے بروقت استعمال میں دوسری سیاسی قیادتوں اور جماعتوں سے کہیں آگے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کا نام دوسرے نمبر پر آتا پے۔ عمران خان اور مریم نواز کے مقبول ہونے کی بڑی وجہ دونوں رہنماو¿ں کی کرشماتی شخصیت ہے، دونوں نوجوانوں اور خصوصاً خواتین میں انتہائی مقبول ہیں۔ اسی بنا پر ٹیلیویژن چینلز ان دونوں رہنماو¿ں کی تقاریر اور پریس کانفرنسز براہ راست دکھاتے ہیں۔ اگر نوازشریف انتخابات سے قبل ملک واپس آجاتے ہیں تو وہ الیکٹرانک میڈیا کی توجہ کا مرکز ہوں گے، سوائے عمران خان کے کوئی اور دوسرا سیاسی رہنما ایسا نہیں جو میڈیا کوریج میں ان کے قریب بھی پہنچ سکتا ہو۔ 
اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر عمران خان گرفتار ہوجاتے ہیں تو تحریک انصاف میں کیا کوئی دوسرا سیاسی رہنما ایسا ہے جو ان کی جگہ لے سکے؟ مجھے تحریک انصاف میں اور کوئی لیڈر ان جیسا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پہلے احتساب پھر انتخاب کے لیے مساوی سازگار مواقع مہیا کیے جانے کی بازگشت سنائی دیتی ہے ، اس کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہے کہ عمران کی گرفتاری اور پھر نااہلی کے بعد عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت سے الیکٹرانک میڈیا کا محاذ چھین لیا جائے تاکہ جو ایڈوانٹیج عمران خان کو حاصل ہے وہ نہ رہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل محمد ضیاءالحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات کی ابتدا اس آل پارٹیز کانفرنس سے ہوئی تھی جس میں وزیراعظم جونیجو نے اپوزیشن رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی مدعو کیا تھا اور ان کی آمد کی جھلکیاں اس وقت کے واحد پاکستان ٹیلیویژن پر دکھائی گئیں۔ پوری قوم نے بے نظیر بھٹو کو سندھی چادر اوڑھے وزیراعظم ہاو¿س آتے دیکھا اور بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔ اس وقت ملک کا واحد ٹی وی چینل ہونے کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا کی طاقت کہیں زیادہ تھی۔ اب ملک میں درجنوں کی تعداد میں نجی ٹی وی چینل موجود ہیں، اسی تعداد کے اعتبار سے آنے والے انتخابات میں ان کا کردار بھی مزید بڑھ جائے گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن