رسالت اورتشریح شریعت(۱)
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:”©©©©میرا عذاب ،پہنچاتا ہوں میں اسے جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت کشادہ ہے ہر چیز پر۔سو میںلکھوں گا اسے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ادا کرتے ہیںزکوة اور وہ جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں ۔(یہ وہ ہیں )جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی امی ہیں جس (کے ذکر)کو وہ پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں ۔وہ نبی حکم دیتا ہے انہیں نیکی کا اور روکتا ہے انہیں برائی سے اور حلال کرتا ہے ان کے لیے پاک چیزیںاور حرام کرتا ہے ان پر ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان سے ان کا بوجھ اور (کا ٹتا ہے)وہ زنجیریں جو جکڑے ہوئے تھیںانہیں۔پس جو لوگ ایمان لائے اس (نبی اُمی)پر اور تعظیم کی آپ کی اور امداد کی آپ کی اور پیروی کی اس نور کی جو اتارا گیا آپ کے ساتھ ،وہی (خوش نصیب )کامیاب و کامران ہیں©“۔(سورئہ الاعراف:۱۵۷)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا :لوگو!تم پر حج فرض کیا گیا ہے،اس لیے تم حج کرو ۔ایک آدمی نے عرض کیا:یا رسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر سال ؟حضور اکرم خاموش رہے۔ اس شخص نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا۔اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میں،ہاں،کہہ دیتا تو تم پر (ہر سال حج ) واجب ہو جاتا اور تم ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا:جس معا ملے میں میں تمہیں کوئی حکم نہ دوں اس کے متعلق سوال نہ کیا کروکیونکہ تم سے پہلی امتیں سوالوں کی کثرت اور اپنے انبیاءپر اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئی تھیں۔جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو مقدور بھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور اگر تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو رک جاﺅ۔(صحیح مسلم)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ”اورلوگوں پر اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرنا فرض ہے اس پر جو اس کی طاقت رکھتا ہو“(آل عمران:۹۷ ) تولوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا ہر سال (حج فرض ہے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، لوگوں نے عرض کیا:یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)!کیا ہر سال؟ آپ نے ارشادفرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر (ہر سال حج )فرض ہو جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ”اے ایمان والو! ان چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا کروکہ اگر وہ تمہارے سامنے ظاہر کی جائیں توتم پر ناگوار گزریں“۔ (جامع ترمذی)