پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف مجہول پراپیگنڈے کا مسکت جواب
وزیر اعظم آفس نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے سوشل اور پرنٹ میڈیا پر گردش کرنے والے حالیہ تمام بیانات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریاﺅ کے معمول کے دورہ¿ پاکستان کو منفی رنگ دیا جا رہا ہے۔ ریاست پاکستان ہر طرح سے اس پروگرام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ یہ پروگرام مکمل طور پر محفوظ ، فول پروف اور کسی بھی دباﺅ سے ماورا ہے۔ بیان میں مزید وضاحت کی گئی کہ پاکستان کا پرامن ایٹمی پروگرام اس مقصد کو ہر طرح سے پوراکرتا ہے جس کے لئے یہ صلاحیت تیار کی گئی تھی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے خود بھی دوٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام قومی اثاثہ ہے جو کُلی طور پر محفوظ ، فول پروف اور کسی بھی دباﺅ سے ماورا ہے۔ سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے یہی بات وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے بھی دہرائی جس کے بقول ایٹمی میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی کو اس بارے میں بات کرنے کا حق حاصل ہے کہ ہمارے پاس کتنے میزائل اور کون سے ہتھیار ہیں۔
یہ حقیقت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارا ایٹمی پروگرام بھارت کو بھی شروع دن سے ہضم نہیں ہوا جبکہ امریکہ اور اس کے حواری ایٹمی کلب کے رکن ممالک کو بھی پاکستان کا ایٹمی قوت بننا گوارا نہیں ہوا چنانچہ ان کی جانب سے پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں اور اسے عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ مشرف کے جرنیلی دور آمریت میں تو نہ صرف پاکستان کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو ہراساں کر کے ان پر پابندیاں لگوائی گئیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کے نام پر ایک امریکی ٹیم بھجوا کر اسے چُرا لے جانے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس سے قبل جنرل ضیاءالحق کے دور میں اسرائیل کو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کے لئے بھی تیار کر لیا گیا تھا۔ یہ سازش بروقت اطلاع ملنے پر پاک فضائیہ نے ناکام بنائی۔ اس کے برعکس امریکہ کی جانب سے بھارت کے ایٹمی پروگرام کی باقاعدہ سرپرستی کی گئی جس نے ایک سازش کے تحت پاکستان کو سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد 1974ءمیں ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ بھارت کے اس اعلان کے بعد ہی پاکستان کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کی خاطر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا عزم باندھا اور اس کے لئے ہالینڈ میں مقیم پاکستان کے نوجوان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ٹامک دے کر یہ اعلان کیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر پاکستان کو ایٹمی قوت ضرور بنائیں گے۔
پاکستان کے ازلی ، مکار دشمن بھارت کے ہماری سلامتی کے خلاف جارحیت کے ارتکاب اور مزید جارحانہ عزائم کے پیش نظر ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول پاکستان کی ضرورت اور مجبوری بن چکا تھا اس لئے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد آنے والے سول اور فوجی حکمرانوں نے بھی اس پروگرام کی تیاری و تکمیل میں قومی جذبے کے ساتھ ہاتھ بٹایا اور جب مئی 1998ءمیں بھارت نے دوبارہ ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قومی مشاورت کے بعد -28 مئی 1998ءکو چاغی میں ایٹمی بٹن دبا کر پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا باضابطہ اعلان کیا جبکہ وہ سخت امریکی دباﺅ اور ہر قسم کی ترغیبات کو بھی خاطر میں نہ لائے اور پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کے طور پر اقوام عالم میں اجاگر کرنے کی سرخروئی حاصل کی۔ امریکہ اور دوسری طاغوتی، اتحادی قوتوں کواسی بنیاد پر پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا گوارا نہیں تھا کہ اس سے انہیں مسلم دنیا کو منتشر کر کے کمزور کرنے سے متعلق اپنے عزائم پر زد پڑتی نظر آ رہی تھی۔ چنانچہ پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوا دیں۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کی بھرپور اور کامیاب ایٹمی صلاحیتوں کے باعث ہی بھارت کو 1971ءکے بعد اب تک پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی کیونکہ اسے اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس سے کئی درجے بہتر بھی ہے اور کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ بھی ہے۔ ہمارا یہ ایٹمی پروگرام ہی اس خطے میں بھارت کے جنونی ، توسیع پسندانہ اور علاقائی و عالمی امن کو تاراج کرنے والے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے جس کے باعث بھارت کے ذریعے اس خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے امریکی عزائم کی تکمیل بھی ناممکن ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور بھارت دونوں کے سینوں پرمونگ دل رہا ہے اور وہ اسے کسی نہ کسی طرح سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔
اس وقت چونکہ ہماری معیشت کو بے پناہ اقتصادی مسائل کا سامنا ہے جس کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بھی ایک منظم سازش کے تحت اقوام عالم میں پھیلائی گئیں اور سابق حکمران پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی اپنی مذموم پراپیگنڈہ مہم کے ذریعے پاکستان کا تشخص خراب کرنے کی کوشش کی جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنا اقتدار جاتا دیکھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کے لئے قبول کی گئی شرائط سے انحراف کر کے آنے والے حکمرانوں کے لئے مسائل پیدا کرنے کی سازش کی۔ اسی بنیاد پر آئی ایم ایف نے پاکستان کا قرض پروگرام معطل کیا اور اس کی بحالی کے لئے بعض نئی اور انتہائی ناروا شرائط عائد کر کے اتحادی حکمرانوں کی ناک رگڑوائی۔
موجودہ حکومت ساری شرائط قبول کر کے عوام عملاً راندہ درگاہ بنا چکی ہے، اس کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کی نوبت پیش آ سکی جبکہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو مسلسل باور کرایا جا رہا ہے کہ اسے آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی کے لئے خود کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی دوران ”آئی اے ای اے“ کے ڈائریکٹر جنرل پاکستان کے دورے پر آئے تو اس سے بعض حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ امریکہ اب آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں نقب لگانا چاہتا ہے اور آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کو پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام ختم کرنے سے مشروط کرا رہا ہے۔ یقیناً صورت حال میں پاکستان کے بدخواہوں کو بھی پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا ہے۔
اب جبکہ پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین سطح پر اس پراپیگنڈے کا مسکت جواب دے دیا گیا ہے اس لئے قوم کو مطمئن رہنا چاہیے کہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی مکمل محفوظ ہے جو ہمارے دفاع کی ضمانت بھی ہے اور اس کے لئے مکمل استعداد و صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ہم اپنے دفاع کے تقاضوں سے ہرگز غافل نہیں۔