• news

عمران خان کی عدالتی پیشی اور عوام و خواص کی تفریق


ہفتے کے روز سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان عدالت میں پیشی کے لیے اسلام آباد روانہ ہوئے تو زمان پارک لاہور میں واقع ان کی رہائش پر پولیس نے سرچ آپریشن شروع کردیا۔یہ سرچ آپریشن ضابطہ فوجداری کی دفعہ 47 کے تحت جاری کیا گیا اور اس کے لیے احکام انسداد دہشت گردی عدالت نے جاری کیے۔ پولیس جب آپریشن کے لیے پہنچی تو اس کے ہمراہ موجود اینٹی انکروچمنٹ ٹیم نے کرین کے ذریعے عمران خان کے گھر کا دروازہ اور دیوار توڑ دی اور باہر موجود مورچوں اور تجاوزات کو بھی ہٹا دیا گیا۔ اس موقع پر پولیس نے پی ٹی آئی کے 40 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنمائوں اورکارکنوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ کرلیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں عمران خان کے گھر سے پٹرول بم بنانے والی بوتلوں، غلیلوں اورکنچوں کے علاوہ چند رائفلیں بھی ملی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ برآمد ہونے والا اسلحہ بظاہر سرکاری ہے۔ امکان ہے کہ یہ وہ اسلحہ ہے جو عمران خان کو بطور وزیراعظم دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں انھوں نے اسے واپس نہیں کیا تھا۔
دو روز پہلے زمان پارک میں جو کچھ ہوا اس سے متعلق پولیس کے موقف میں کتنے ہی جھول کیوں نہ ہوں لیکن کیمرے کی آنکھ کی مدد سے وہ مناظر پوری دنیا کے سامنے آچکے ہیں جب 14 مارچ کو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عدالتی احکام پر عمل درآمد کے لیے آنے والی پولیس ٹیم پر حملہ کرکے متعدد پولیس اہلکاروں اور افسروں کو زخمی کردیا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ عمران خان کے ایما پر ہوا کیونکہ وہ کسی بھی حال میں گرفتاری نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس سے ایک طرف ریاستی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا تو دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ پیغام بھی دیا کہ طاقت رکھنے والے لوگ قانون سے ماورا ہیں، لہٰذا پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ یہی عمران خان خود اپنی تقریروں اور بیانات میں بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ کمزور اور طاقتور کے الگ الگ قانون ملکوں اور قوموں کے زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ’دو نہیں، ایک پاکستان‘ کا نعرہ بھی انھوں نے اسی تناظر میں گھڑا تھا لیکن خود انھوں نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس سے متعلق عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی وہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو ساتھ لے کر گئے تھے جس کی وجہ سے جی الیون میں واقع جوڈیشل کمپلیکس کے اردگرد کا علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے جوڈیشل کمپلیکس کی سکیورٹی کے لیے علاقے میں کنٹینرز لگا کر خار دار تار بچھا رکھے تھے اور چار ہزار پولیس افسران و اہلکاران کو ڈیوٹی پر مامور کیا گیا تھا۔ بلٹ پروف گاڑی میں جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے والے عمران خان کے ساتھیوں نے اصرار کیا کہ وہ اپنے قائد کے ہمراہ کمپلیکس کے اندر جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس اور کارکنوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے ایک پولیس چوکی کو آگ لگا دی اور پولیس پر شدید پتھراؤ بھی کیا۔ اس دوران کارکنوں کی طرف سے پولیس پر پٹرول بم بھی پھینکے گئے اور آنسو گیس کے گولے بھی چلائے گئے۔ پولیس نے بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس چلائی۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ مشتعل مظاہرین نے 25 سے زائد موٹر سائیکل اور گاڑیاں جلا دیں۔
اس صورتحال کی وجہ سے عمران خان کی حاضری بھی گاڑی ہی میں لگوائی گئی اور ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں ان کے وارنٹ گرفتاری بھی منسوخ کر دیے جبکہ فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 30 مارچ تک مؤخر کر دی گئی۔ اس موقع پر عدالت نے عمران خان کے گیٹ پر ہی دستخط کروانے کی اجازت دے دی اور جج نے کہا کہ ایک دفعہ حاضری ہو جائے تو عمران خان واپس جا سکتے ہیں۔ جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فاضل جج ہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کے چیئرمین پی ٹی آئی کو رعایت دینے کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آئے گی یا نہیں لیکن یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ اس سے عام آدمی کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ پاکستان میں واقعی دو طرح کے قوانین موجود ہیں، ایک وہ ہے جس کا اطلاق عوام پر ہوتا ہے اور اس قانون کے تحت پولیس ایک عام آدمی کے ساتھ جو چاہے کرسکتی ہے کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا، اور دوسرا قانون خواص کے لیے ہے جن کا پولیس بال بھی بیکا نہیں کرسکتی، البتہ وہ چاہیں تو پولیس کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
صدرِ مملکت عارف علوی کا یہ کہنا درست ہے کہ تمام سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ملک کو بحران سے نکالنا چاہیے کیونکہ موجودہ سیاسی صورتحال میں کوئی بھی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے لیکن انھوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ اور کارکنوں کے ریاستی اداروں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات پر کوئی بھی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ نہایت افسوس ناک صورتحال ہے کہ ایک سیاسی جماعت خود کو شدت پسندی میں اس حد تک لے جاچکی ہے کہ اس کے رہنما اور کارکنان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قائد کا احتساب ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کسی نے اس کا احتساب کرنے کی بات کی تو اسے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال میں عدلیہ اور سیاسی قیادت سمیت سب کو نہایت سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان کی آئندہ نسلوں اور بیرونی دنیا کو اس طرح کے واقعات سے کیا پیغام دے رہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن