• news

حضرت خباب بن الارت ؓ(۲)


دین حق قبول کرنے کی پاداش میں حضرت خباب کو نہ صرف جسمانی تشدد کے جاں گسل مرحلوں سے گزرنا پڑا،بلکہ کفار کوشش کرتے رہے کہ انھیں مال و زر کے حوالے سے بھی نقصان پہنچائیں۔عاص بن وائل نے ان سے تلواریں تیار کروائی تھیں،لیکن معاوضہ ابھی اس کے ذمے باقی تھا،آپ نے تقاضہ کیا تو اس نے کہا کہ تم جب تک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ نہیں چھوڑو گے رقم اس وقت تک نہیں مل سکتی،آپ نے جواب دیا کہ تم مر کر دوبار زندہ بھی ہو جائو تو میں تو یہ کام نہیں کر سکتا،اس پر اس نے مسلمانو ں کے عقیدئہ قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا،اچھا میں مر کر دوبارہ زندہ ہو جائوں گا اور مجھ کو مال، دولت اور اُولاد ملے گی تو میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔خباب نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں اس کی اس کٹ حجتی کا تذکرہ کیا تو قرآن مجیدکی یہ آیات نازل ہوئیں’’کیاآپ نے اس شخص کے حال پر نظر کی جس نے ہماری آیا ت سے کفر کیااور کہا (قیامت میں)مجھ کو (بھی)مال اور اولاد ملے گی،کیا اس کو غیب کی خبر ہو گئی،یا اس نے خدائے رحمن سے عہد لیا ہے،ہر گز نہیں یہ جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیتے ہیں،اور (دنیا)میں اس کے عذاب میں ڈھیل دیتے جائیں گے،اور جو کچھ وہ کہتا ہے،اس کے ہم وارث ہوں گے اور یہ تنہا ہمارے سامنے (مواخذے) کے لیے پیش ہو گا۔(مریم ۷۷۔۸۰)
اس ابتلاء وآلام میں حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ثابت قدم رہنے کی تلقین فرماتے اور بشارت سے خورسند فرماتے،حضرت خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے،حضور ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحن کعبہ میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما تھے،ہم نے آپ سے گزارش کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ،اللہ تبارک تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجیے اور مدد طلب فرمائیے،یہ سن کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرے اقدس کا رنگ سرخ ہو گیااور آپ نے ارشاد فرمایا،تم سے پہلے لوگوں کیلئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے ،اور ان کے سروں کو آروں سے چیر دیا جاتا تھا،اسی طرح لوہے کی کنگھیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے عقب میں گوشت اور پٹھوں میں گاڑھ دی جاتی تھی لیکن یہ (بلا کی)اذیت بھی ان کو دین سے برگشتہ نہیں کرسکتی تھی۔(یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کر کے رہے گا،یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اورحضر موت کے درمیان (یکہ اور تنہا)سفر کرئے گا۔(اور اس وقت امن و امان کی کیفیت ہو گئی)کہ اس سفر میں اسے صرف خدا کا خوف ہو گایا فقط اس خطرے کا اندیشہ کہ کہیں بھیڑیا اس کی بکری کو اٹھا کر نہ لے جائے ۔(بخاری ، مسلم، ابن حبان ، احمد)نبی کریم ﷺکی اس بشارت نے خباب کے حوصلوں کو اورتوانائی بخش دی۔

ای پیپر-دی نیشن