پی ایس ایل اور عوامی مسائل
لاہور قلندرز نے ملتان سلطانز کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک رن سے شکست دے کر مسلسل دوسری بار پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی چیمپئن بن گئی۔ لاہور پہلی ٹیم ہے جس نے پی ایس ایل میں اپنے اعزاز کا دفاع کیا۔ ملتان سلطانز نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تاہم مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں پر 199 رنز بنا سکی۔ لاہور قلندرز کو دوسری بار پی ایس ایل چیمپئن ٹرافی جیتنے پر لاہور سمیت پوری قوم مبارکباد پیش کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد ملک میں کھیلوں کی سرگرمیاں بالخصوص پی ایس ایل کا انعقاد اس حوالے سے اطمینان بخش ہے کہ اس میں غیرملکی کھلاڑیوں کی شرکت اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور وہ کھیلوں کے میدانوں کو آباد رکھنا چاہتا ہے۔ بے شک ایسی سرگرمیوں کے انعقاد سے دنیا کے سامنے پاکستان کا پرامن ہونے کا پیغام جاتا ہے لیکن ان سرگرمیوں سے شہریوں کو جو اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے وہ کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں۔ جس شہر میں یہ میچ ہو رہے ہوتے ہیں اس شہر کی ٹریفک کا نظام تو درہم برہم ہوتا ہی ہے ساتھ سکول کالج جانے والے بچوں اور دفاتر پہنچنے والوں کو بھی ایک کٹھن مرحلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ دفتر پہنچنے کا جو راستہ عام طور پر 20 منٹ میں طے ہوتا ہے وہ متبادل راستہ اختیار کرنے پر گھنٹے میں بھی طے نہیں ہو پاتا جس سے پٹرول کا اضافی خرچہ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ مہنگا پٹرول افورڈ کرنا پہلے ہی عوام کی برداشت سے باہر ہو چکا ہے۔ ملک میں بین الاقوامی کھیلوں کا انعقاد ضرور ہونا چاہیے لیکن اس دوران عوام کو ذہنی اذیت سے بچانا انتظامیہ ہی کی ذمہ داری ہے۔ بہتر ہے کہ سٹیڈیم کے قریب گیسٹ ہائوسز تعمیر کرلیے جائیں جہاں مہمان کھلاڑیوں کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس طرح صرف اسی علاقے پر سکیورٹی مامور کرنے کی ضرورت پڑے گی اور پورا شہر بند کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ عوام بھی اذیت سے بچ سکیں گے اور سکیورٹی وغیرہ پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔