ٹیریان معاملہ ، میرٹ پر جائیں تو دو منٹ کا کیس ، تاحیات نا اہلی کوئی بھی چیز نہیں : اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ میں زیر سماعت مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں چھپانے پر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف نااہلی کیس میں دلائل جاری رہے۔ درخواست گزار وکیل نے کہا عدالت نے آخری سماعت پر مزید دستاویزات جمع کرانے کیلئے مہلت دی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست کے قابل سماعت ہونے یا میرٹ پر دلائل دینے ہیں یہ آپ پر ہے۔ عمران خان کے وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ جب نوٹسز جاری ہوتے ہیں تو پھر فریق کو جواب جمع کرنا ہوتا ہے، کیس کے فریق نے تین مہلتوں کے بعد درخواست دائر کی، فریق کی جانب سے مختلف اعتراضات اٹھائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ابھی نہیں کہہ رہے کہ آپ میرٹ پر دلائل دیں، اگر میرٹ پر جائیں تو یہ دو منٹ کا کیس ہے ویسے۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو میانوالی کی نشست سے ڈی سیٹ کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ ان کو ابھی بھی اس ایک حلقہ کے نمائندہ کے طور پر مانتے ہیں؟۔ عمران خان اس وقت تو میانوالی کی نشست پر سے اب تو ممبر قومی اسمبلی ہی نہیں، اگر ایک بندہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتا ہے اور وہ حلف نہیں لیتا تب کیا ہوگا؟۔ حلف نہ لینے کی صورت میں کیا عمران خان پبلک آفس ہولڈر ہونگے کیا؟۔ اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہاکہ عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب ممبر قومی اسمبلی نہیں ہیں، کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جا چکا، عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے اس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کے باوجود بھی وہ دوبارہ ممبر قومی اسمبلی نہیں بن جاتے، عمران خان اب اس نشست سے تو ایم این اے تو نہیں ہیں۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ عمران خان کا ایک دوسرے حلقے سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر سٹیٹس کیا ہو گا؟۔ کیا پارٹی سربراہ پبلک آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں۔ یہ دونوں سوالات اہم ہیں، ان پر دلائل دیں، ایک تو الیکشن ٹربیونل میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس نکتے پر اب آپ نے مطمئن کرنا ہے، سوال یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر ہیں؟، عمران خان جب الیکشن لڑے کوئی ٹریبونل جا سکتا تھا، اس کیس میں تو کوئی ٹریبونل میں نہیں گیا، عمران خان ابھی بھی الیکشن لڑ کر جیتے، کیا کوئی کرپٹ پریکٹس میں عمران خان کیخلاف ٹریبونل گیا؟، عمران خان کیخلاف اس وقت کووارنٹو کی رِٹ کیسے جاری کریں؟، کیا محض نشستوں پر کامیاب ہونا پبلک آفس ہولڈر بنا دیتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا بیان حلفی کی شرط ابھی بھی موجود ہے؟، جس پردرخواست گزار وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی دینے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر غلط بیان حلفی دیا گیا ہے تو آپ توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیں، اگر آئندہ الیکشن میں عمران خان وہی بیان حلفی دیتے ہیں تو یہ فریش کیس نہیں ہو گا، جو ماضی ہے وہ ماضی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟۔ مشرف دور میں بی اے تعلیم لازم قرار دیدی گئی اور بہت سے لوگوں نے جعلی ڈگریاں لیں، سمیرا ملک کیس میں سپریم کورٹ نے تفتیش کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا تھا جعلی ڈگری ثابت ہونے پر ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کی جائیں،کیا ان کیسز میں کچھ ہوا تھا؟۔ درخواستگزار وکیل نے کہاکہ عمران سے متعلق تو امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے، عمران خان نے امریکی عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وہ بیان حلفی نہیں ڈکلیریشن ہے، جس پر اوتھ کمشنر نے پاکستان میں دستخط کئے۔ وکیل نے کہا کہ عمران نے بطور والد بیٹی کی سرپرستی حوالے کرنے کا ڈکلیریشن دیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس ڈکلیریشن میں والد کا لفظ تو کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قومی اسمبلی آج تحلیل ہو جاتی ہے تو پھر اس پٹیشن کا کیا بنے گا؟۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ نااہلی تب تک رہے گی جب تک آرٹیکل 62 ون ایف آئین میں موجود ہے۔ دوران سماعت نواز شریف اور جہانگیر ترین کیسز کا بھی تذکرہ ہوا۔ وکیل درخواست گزار نے کہاکہ نواز شریف کے خلاف کیس میں عمران خان ہی درخواست گزار تھے، سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کیس میں تاحیات نااہلی کو صرف مقررہ مدت تک کیلئے کیا، اس کیس میں بھی آپ دیکھ لیں کہ کیا نااہلی تاحیات ہوگی یا مقررہ مدت تک؟، سپریم کورٹ کی فیصل واوڈا کیس میں فیصلہ ہمارے سامنے نئی نظیر ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر مان لیا جائے کہ بیان حلفی غلط تھا تو کیا تاحیات نااہلی ہو گی؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تاحیات نااہلی تو ہماری سمجھ کے مطابق کوئی بھی چیز نہیں ہے،تاحیات نااہلی تو نوازشریف اور جہانگیر ترین کیس میں تھی۔ درخواست گزار وکیل نے کہاکہ نوازشریف کیس کا اطلاق عمران خان کے اس کیس پر بھی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ماضی قریب کے کیسز میں دو تاحیات نااہلیاں سپریم کورٹ نے ختم کیں، فیصل واوڈا ، خواجہ آصف دونوں ہائیکورٹ سے نااہل ہی ہوئے تھے، سپریم کورٹ سے دونوں کیسز میں تاحیات نااہلی ختم ہوئی، فیصل واوڈا نے پہلے اعتراف کیا پھر افسوس کا اظہار کیا نا؟۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ عمران خان کیس میں ریکارڈ سے ہمیں کہیں اعتراف نظر نہیں آیا ،کیا ایسا ہو سکتا ہے کسی کو ساری زندگی پتہ نہ ہو اس کا کوئی اور بچہ بھی ہے؟۔ وکیل عمران خان نے کہاکہ حبیب اکرم کیس زیر کفالت افراد کی بات کرتا ہے، اس کیس میں درخوست گزار دکھائیں کہاں زیر کفالت کا معاملہ ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سلمان اکرم راجہ کا یہ اعتراض جائز ہے۔ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ حبیب اکرم کیس بچوں کی بات ہی نہیں کرتا زیر کفالت کی کرتا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ کسی بندے کو بہت بعد میں یاد آئے کہ وہ فلاں ان کا بچہ ہے، لوگوں نے بچے پالے اور جائیداد کے معاملے میں اختلاف آتا ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ تو اپنا تھا نہیں، سول میٹرز میں ہمارے سامنے ایسے بہت سارے کیسز موجود ہیں۔