• news

لیڈرز: ان چراغوں تلے اندھیرا ہے


سقراط یونان کا عظیم فلسفی اور دانشور تھا۔ وہ انتہائی ایماندار اور غیر جانبدار فلسفی تھا۔ لیڈروں کے بارے میں اس کے نظریات تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ ایک لیڈر کے لیے سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ ہو اور اعلیٰ حسب نسب سے ہو مگر اس کے لیے دولتمند ہونا ضروری نہیں۔ وہ جائیداد بنانے والے لیڈروں کو بھیانک مجرم سمجھتا تھا اور ایسے لیڈروں کے لیے اس نے بھیانک سزا تجویز کی یعنی ثبوت موجود ہو تو دلائل کے بغیر گردن زدنی اور بس۔ وہ مزید کہتا ہے نیک عمل کا مخزن عقل ہے اور عقل اچھی تعلیم و تربیت کے بغیر نامکمل ہے۔ ایک لیڈر حق و ناحق انصاف اور بے انصافی کو مکمل طور پر سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ وہ آزاد اور طاقتور ہونے کے باوجود اپنے ضمیر کا قیدی ہو۔ سقراط خود غریب طبقے سے تھا اور عوام الناس میں سے تھا لیکن وہ عوام الناس سے چنے گئے لیڈروں کے خلاف تھا کیونکہ اس کے مطابق یہ طبقہ اعلیٰ تعلیم و تربیت سے محروم ہوتا ہے اور اخلاق اور اصول کو سمجھنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس کا نظریہ تھا کہ بول کی آزادی اس طبقے کو بھی دی جانی چاہیے مگر اسے بعد میں ایک واقعے کے بعد اپنے اس نظریے کو رد کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک بار ایتھنز کی پارلیمنٹ نے اسے پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے کی دعوت دی۔ وہ پارلیمنٹ کے ایک کونے میں بیٹھا چپ چاپ یہ کارروائی دیکھ رہا تھا۔ جب ممبران بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تو تقریباً ہر ممبر نے ایک دوسرے کے لیے اتنی رکیک اور فحش زبان استعمال کی کہ وہ جاری کارروائی کو چھوڑ کر ایوان سے باہر نکل آیا اور دو ایسے الفاظ بولے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس نے کہا، Liberty, not license، یعنی آزادی نہ کہ کھلی چھٹی۔ قارئین کو علم ہو گا کہ اس عظیم فلسفی کو اس کے نظریات کی وجہ سے زہر کا پیالہ پلایا گیا تھا میں سوچ رہی ہوں کہ سقراط اگر کبھی ہمارے پارلیمنٹ ہاﺅسز میں آ جاتا تو وہ خود ہی اپنی جیب سے زہر خرید کر پی لیتا اور ہمارے پارلیمنٹ ہاﺅس کی د ہلیز پر ہی ڈھیر ہو جاتا۔ 
دنیا میں بشمول پاکستان (سرفہرست) ایسے ایسے لیڈر گزرے ہیں اور موجود بھی ہیں جواپنے حسب نسب کی پسماندگی، تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے ایسی ایسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئے جنھوں نے لاکھوں انسانوں کو تہ تیغ کر ڈالا۔ امریکا کے تمام لیڈر جو سب اس کے حاکم بنے وہ ایک قومی احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قوم اپنے تاریخی حسب نسب کی وجہ سے جس احساس کمتری کا شکار ہے۔ اسے احساس برتری میں تبدیل کرنے کے لیے یہاں کا لیڈر پورے کرہ¿ ارض کا لیڈر بننا چاہتا ہے، چنا نچہ امریکا ہتھیار بنانے اور انھیں استعمال کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو گیا۔ امریکا کی تاریخی حیثیت نے سب کچھ کھول دیا ہے۔ 
ہٹلر فوج میں ایک ڈاکیہ تھا۔ ایک دن اس کی اپنے ایک ساتھی سے ہاتھا پائی ہو گئی اور ہٹلر نے اسے پچھاڑ دیا۔ اس موقع پر اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے زیرِلب ایک فقرہ کہا، ’سب کچھ طاقت ہے!‘ طاقت سے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہی بات جرمنوں کو سمجھائی کہ آپ دنیا کی اعلیٰ ترین قوم ہیں، اپنی طاقت کا استعمال کریں اور ساری دنیا کو فتح کر لیں۔ اس فقرے سے ساری قوم کو اپنے ساتھ ملایا اور انھیں اس طاقت کے استعمال پر ابھارا اور جنگوں میں جھونک دیا۔ لاکھوں انسان ان جنگوں میں تہ تیغ ہو گئے اور خود اپنی چالاکی سے جرمنی کا چانسلر بن گیا لیکن بہت جلد جرمن قوم اس کی چالاکی اور نقلی پن سے واقف ہو گئی اور اس سے برملا اتنی نفرت کرنے لگی کہ ہٹلر کو زیرزمین چھپ کر خودکشی کرنی پڑی۔
ایران کے رضا شاہ پہلوی کے لیڈر بننے کے شوق نے اسے بے توقیری کی انتہا میں پھینک دیا، اسلامی تعلیمات اور احکامات کو پاﺅں تلے روندتے ہوئے سب سے پہلے اسلامی کیلنڈر کو منسوخ کر کے پہلوی کیلنڈر متعارف کروایا۔ اسلامی ذہن کے لوگوں کو چن چن کر قتل کروایا۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جب مشیت ایزدی جوش میں آئی اور جگر کے کینسر نے اس کے جسم کو مسمار کرنا شروع کر دیااور ایرانی قوم اس کی عیاشیوں اور فضول خرچیوں سے سڑکوں پر نکل آئی اور وہ خوف و ہراس میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا تو کسی بھی ملک نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مصر نے بمشکل اجازت دی اور وہ وہیں بے بسی سے مر گیا مگر اسی ملک ایران میں جب ایک اصلی اور سچا لیڈر امام خمینی 15 سال کی جلاوطنی کے بعد جب ایران واپس آیا تو لوگوںنے محبت و جوش میں اسے گاڑی سمیت اپنے سروں پر اٹھا لیا اور مہر آباد کے جس ائیرپورٹ سے اسے تضحیک سے شاہ کی فوج نے نکالا اسی مہر آباد ائیرپورٹ پر اس کے جہاز کو اسی فوج کے جہازوں نے اسے احتراماً اپنی نوکیں زمین پر ٹیک کر سلامی دی۔ پھر ایک اور سچا اور اصلی لیڈر آیا ساﺅتھ افریقہ کا مردِ خر نیلسن منڈیلا 27 سالہ جیل کاٹ کر جب باہر آیا تو ایک اخبار نویس نے کہا، آپ نے روبن آئی لینڈ جیسے جیل خانے میں 27 سال قید میں گزارے۔ آپ کو کیسا لگا؟ اس نے تاریخی جواب دیا، 27 سالہ قید تو میری آزادی کی قید تھی کیونکہ وہ سارے سال میں نے اپنی قوم کی آزادی کے لیے گزارے۔

ای پیپر-دی نیشن