عمران خان کی مقبولیت کی وجوہات
عمران خان کی نئی مقبولیت کے بارے میں قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے - جس کا آغاز 8 اور 9 اپریل 2022 کی درمیانی رات کو ہوا- سوشل میڈیا پر عمران خان کی دلیری اور مظلومیت کی لہر کا ایسا ٹرینڈ چلایا گیا جس نے عمران کے حق میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے پاکستانیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ عمران خان سے اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکل آئے - یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا - پاکستانی دلیر لیڈر سے عشق کرتے ہیں- مولا جٹ فلم کی غیر معمولی مقبولیت عوام کی اس خوبی کا منہ بولتا ثبوت ہے- عمران خان نے امریکی سازش کا جو بیانیہ تشکیل دیا وہ کامیاب رہا- پاکستان کے عوام امریکہ پاک فوج اور عدلیہ کے ماضی کے کردار کے سے خوش نہیں ہیں- سپریم کورٹ نے تکنیکی غلطی کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی حمایت میں رات بارہ بجے اپنے دروازے کھول دیئے- عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے ہی ایک پبلک ریلی میں امریکی سائفر اور جرنیلوں کی بے وفائی کے بارے میں عوام کو آگاہ کر دیا تھا - اقتدار کی آخری رات کو جب عمران خان حسب معمول اپنی ڈائری لے کر وزیراعظم ہاﺅس سے بنی گالا روانہ ہوئے تو اس منظر کو دیکھ کر پاکستانیوں نے عمران خان کو اپنا مقبول لیڈر تسلیم کرلیا جو تنہا تھا مگر پاکستان کے قومی اور عوامی مفاد کے ساتھ کھڑا تھا اور جس نے پاکستان میں اڈوں کے سلسلے میں امریکہ کو ایبسو لوٹلی ناٹ کہ دیا تھا - عمران خان نے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد طاقت ور ریاستی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ملک بھر میں پاکستان کے عوام کے پاس جانے اور انہیں اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا اور چند ماہ میں لگاتار 60 پبلک ریلیاں کرکے اپنے سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کو حیران کردیا -یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ تھا کہ کسی لیڈر نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد گھر بیٹھنے کے بجائے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا-دلیری کے بعد عمران خان کی مقبولیت کی دوسری بڑی وجہ پی ڈی ایم کے ان لیڈروں کا اقتدار میں آنا ہے جو کرپشن کے سلسلے میں مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے تھے - عوام نے اس نوعیت کی تبدیلی کو قبول نہیں کیا اگر پی ڈی ایم عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرا دیتی تو عمران خان اس قدر مقبول نہ ہوتے- مہنگائی اور بد انتظامی عمران خان کے دور میں بھی پریشان کن تھی مگر اتحادی حکومت نے اس ضمن میں مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے جس کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت کم نہ ہوسکی- عمران خان کو ڈرانے کیلئے ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا عمران خان اس حملے کے بعد بھی خوف زدہ نہ ہوئے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا عوام کی نظروں میں ان کیلئے ہمدردی کا جذبہ مزید بڑھ گیا- عمران خان نے آزادی اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے برعکس عوام کی نظروں میں اپنی مقبولیت کے گراف کو برقرار رکھنے کیلئے جرنیل مخالفت بیانیہ جاری رکھا - اتحادی حکومت نے عمران خان اور تحریک انصاف کے مرکزی لیڈروں کے خلاف 80 کے قریب مقدمات درج کر کے عمران خان کی مقبولیت کے تسلسل کو جاری رکھا - حکومت نے توشہ خانہ کا ریکارڈ جاری کرکے عمران خان پر اخلاقی دباﺅکم کر دیا ہے- پاکستان کے عوام عمران خان کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کا پسندیدہ بندہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ پنجگانہ نماز پڑھتے ہیں اور ہر تقریر کا آغاز ایاک نعبد و ایاک نستعین سے کرتے ہیں- عوام کا سیاسی شعور چونکہ نا پختہ ہے اس لیے ان کو خوش فہمی ہے کہ عمران خان پاکستان اور عوام کو حقیقی آزادی دلا سکتے ہیں جو موجودہ کلونیل اور استحصالی نظام میں ممکن ہی نہیں-لوگ عمران خان کے عشق میں مبتلا ہو چکے ہیں اور انہیں اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں- اس عوامی جنون کو عقل اور دلیل کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جا سکتا -
عمران خان نے کپتان کی حیثیت سے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا شوکت خانم ہسپتال تعمیر کرایا پسماندہ علاقے میں ورلڈ کلاس نمل یونیورسٹی تعمیر کرائی جس کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں- عمران خان کے احساس پروگرام سے عوام کو یقین ہوا کہ عمران خان غریب عوام کے ہمدرد ہیں- عمران خان اللہ نے خوبصورت اور پرکشش چہرہ عطا کر رکھا ہے- تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے نئی ٹیکنالوجی کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اور تحریک انصاف کے حق میں جس مہارت سے استعمال کیا ہے وہ سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے-عمران خان کو اگر آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تو وہ اپنا سیاسی باب مکمل کر لیتے اور انکی کارکردگی پوری طرح عوام کے سامنے آ جاتی عمران خان کو ساڑھے تین سال کے بعد اقتدار سے فارغ کر دیا گیا جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کیلئے ہمدردی پیدا ہوئی- عمران خان کی گرفتاری کے سلسلے میں پولیس آپریشن کیا گیا اس کی مزاحمت کیلئے پاکستان کے کونے کونے سے پارٹی کارکن زمان پارک پہنچ گئے جو ان کی مقبولیت کا کھلا ثبوت ہے- آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان عوام کی مقبولیت کو عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی اور ریاست پر عوام کی حاکمیت کیلئے استعمال کر سکتے ہیں- پاکستان کی سیاسی تاریخ اس سوال کا جواب پہلے ہی دے چکی ہے- قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے جنہوں نے 1970 کے شفاف انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی- عوامی مقبولیت کے باوجود وہ اپنے عوامی اور انقلابی مقدس مشن کو مکمل نہیں کر سکے تھے حالانکہ انکی سیاسی بصیرت کا زمانہ معترف تھا- انہوں نے وطن پر اپنی جان قربان کر دی مگر اپنی عوامی شہرت کو ریاست اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کیلئے استعمال نہ کیا- عمران خان نے ابھی دو تہائی اکثریت ثابت کرنی ہے وہ قوم کو عوامی انقلابی ایجنڈا نہیں دے پائے لہٰذا غیر جانبدار مبصرین کے مطابق ان کا ریاستی اداروں کےساتھ ٹکراﺅ ذاتی گروہی سیاسی مقاصد کیلئے ہے-
پاکستان جاگو تحریک بیداری اور شعور کی واحد تحریک ہے جو انگریزوں کے موجودہ بوسیدہ ناکارہ استحصالی اور عوام دشمن سیاسی معاشی عدالتی اور انتظامی نظام کے خلاف لوگوں کو بیدار کر رہی ہے- پاکستان جاگو تحریک گوجرانولہ کے صدر محترم انجینئر ہشام علی اور جاگو تحریک گوجرانولہ ڈویژن کے نظریاتی دانشور صدر محترم افضال انقلابی نے صراط مستقیم انسٹی ٹیوٹ ہال گوجرانولہ میں ایک فکری نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر منیر ہاشمی عام آدمی پارٹی کے فضل ربانی صراط مستقیم انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر قیصر منیر اور جاگو تحریک کے راقم سمیت ڈاکٹر امجد علی خان زبیر شیخ توقیر صادق طیب احمد اور مقصود حسین خان نے شرکت کی۔ مقررین نے اتفاق رائے کیا کہ جب تک انگریزوں کے نافذ کردہ پولیس عدلیہ بیوروکریسی عسکری سیاسی اور معاشی نظاموں کو تبدیل نہیں کیا جاتا پاکستان ایک خوشحال ملک نہیں بن سکتا - کاش عمران خان اپنی عوامی مقبولیت کو نظام کی تبدیلی کیلئے استعمال کر سکیں تو پاکستان اور عوام دونوں کا مقدر بدل سکتا ہے-پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کو اس بنیادی قومی مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے -