عوامی مسائل سے اغماض اور ڈاکٹر محمودشوکت کا خط
میں نے تہیہ کررکھا ہے کہ پرانی اور نئی نسل کو ملک برکت علی کا نام بھلانے نہیں دوں گا۔ میں نے اس ہفتے تہیہ کرلیا تھا کہ ملک برکت علی پر زیرترتیب کتاب کے بارے میں تفصیلی اظہار ِ خیال کروں گا۔ اور اس کتاب کے مصنف جو ملک برکت علی کے پوتے ہیں، ڈاکٹر محمود شوکت سے اپیل کروں گا کہ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے، کے مصداق اب وہ کتاب کو کسی چھاپہ خانے کے سپرد کردیں۔ تاکہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب قومی افق پر قوس ِ قزح کی طرح جگمگاتا رہے ۔ ابھی کالم لکھنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ مجھے ڈاکٹر محمود شوکت صاحب کا ایک خط موصول ہوا۔ ان کا یہ خط اگرچہ بظاہر میرے نام ہے، تاہم اس کے مخاطب قومی میڈیا کے تمام صحافی، دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔ڈاکٹر محمود شوکت صاحب کے بارے میں عرض کرتا چلوں کہ وہ نوزائیدہ بچوں کے ممتاز سرجن ہیں اورلاہور کے تمام میگا ہسپتالوں کے ایم ایس کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ میوہسپتال کی گورننگ باڈی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ کے وائس چانسلر بھی تعینات ہوئے ۔ کرونا وائر س کی وبا کے دوران وہ پنجاب کرونا کمیٹی کے سربراہ تھے اور انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کرونا کو کنٹرول کرنے کیلئے بلامعاوضہ اپنی خدمات انجام دیں۔
بلاشبہ ڈاکٹر محمود شوکت ایک مفکر بھی ہیں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں ، بلکہ وہ ان کا مناسب حل بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال پہلے آپ مجھے موصول ہونے والا ان کا خط ملاحظہ فرمالیں،لکھتے ہیں :
” محترم اسد اللہ غالب صاحب!
میں آپ کی تحریروں کا قاری ہوں ۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اور آپ کے پیشہ ور بھائی مسلسل سیاسی بازی گروں کے بارے میں لکھتے رہنے کے گناہ کبیرہ سے توبہ کر لیں، اللہ بہت معاف فرمانے والا ہے ،خدا کی مخلوق اس وقت شدیدکرب میں مبتلا ہے، اہل قلم و دانش اپنی اپنی پسند کے سیاست دانوں کی مداح سرائی میں دیوانگی کی حدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اپنے نا پسندیدہ عوامی نمائندوں کی کردار کشی کا فریضہ بھی اسی تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں ۔
اللہ سے سچی معافی کے بعد اپنا رخ عوام کے مسائل اجاگر کرنے کی طرف موڑیں، اس ملک کے بے کس اور مجبور پسنے والوں کے لئے زبان کھولیں اور انکے مسائل کو اپنی تحریروں کا محور بنائیں۔ یہ قلم کے ذریعے سے جو صحافتی طاقت آپ کو قدرت نے دی ہے، اس کا وہ ذات اقدس حساب بھی تو مانگے گی۔
حضور صرف زبانی عبادات کا وقت شاید نہیں، یقیناً گزر چکا ہے۔ اب حقیقی توبہ اور بد عملی اور بے عملی سے توبہ ہی ذریعہ نجات بن سکتا ہے اس کا وقت بھی کم ہی ہے ۔
صرف زبانی توبہ سے آگے چلیں، لوگوں کے حقوق اور انصاف کی بات کریں۔ ناجائز مراعات جو حاصل کیں لو ٹائیں، سادگی کی طرف لوٹیں ،لوگوں کو برابر مواقع دینے کی بات کریں ۔
مثالی معاشرہ بنانے کی کوشش شروع کریں ،ریاست کے وسائل عوام کے لئے مہیا کروائیں، صرف زبانی نعروں سے اب کچھ نہیں بنے گا قربانی ہمیں دینی ہے جن کو اس ملک نے نوازا ہے۔ خدارا اس پر غوروفکر کریں۔
خیر اندیش
محمود شوکت ‘ ‘
اس خط میں دردمندی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ہم لوگوں کو بجا طور پر حقیقی عوامی مسائل کی طرف توجہ دینے کی بات کی ہے ۔ عوام کا مسئلہ چند سیاستدانوں کا جتھا نہیں ، بلکہ مسائل کا وہ پہاڑ ہے جو عوام کے سروں پر ٹوٹ گرا ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ اس وقت ملکی میڈیا ریٹنگ کے جنون میں مبتلا ہے ۔ اس چکر میں عوام کے مسائل سے مجرمانہ اغماض برتا جارہا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ ملک کا ایک تہائی حصہ پچھلے سال سیلاب میں ڈوب گیا تھا اور تین کروڑ انسان بے خانما ںوبے آسرا ہو گئے ۔ آبادیاں ملیا میٹ ہوگئیں،فصلیں پانی کے تیز ریلے میں بہہ گئیں، ریلوے لائنیں اور شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو گئیں۔
پچھلا موسم سرما اور موسم ِ گرما سیلاب زدگان نے کھلے آسمان تلے گذارا۔ حکومت نے100ارب روپے کے قریب امدادی سامان تقسیم کیا، رضاکارانہ تنظیموں نے بھی فراخدلی سے عوامی ریلیف کی سرگرمیوں میں حصہ لیا ۔ بیرونی دنیا نے بھی پاکستان سے ہمدردی کا رویہ اختیار کیا اور اربوں ڈالر کی امداد کے وعدے وعید کئے ، مگر عملی طور پر سیلاب زدگان کی اکثریت عالمی امداد سے تاحال محروم ہے۔ اب ایک بار پھر گرمی اپنے زوروںپر ہے، گھٹائیں بھی چھائی ہوئی ہیں،کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس بار کا مون سون کیا کیا ستم ڈھائے گا۔
بلاشبہ حالیہ سیلاب نے قومی معیشت کو ڈانوا ڈول کردیا ہے ، رہی سہی کسر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کی وجہ سے منہ زور مہنگائی نے نکال دی ہے۔ خط ِ غربت سے نیچے بسنے والے عوام کا تو کوئی پرسان حال نہیں ۔ سفید پوش طبقہ بھی دو وقت کی روٹی کمانے کے قابل نہیںرہا۔ اربوں روپوں میں کھیلنے والے چند گنے چنے خاندان تو اپنی عیاشیوں میں مست ہیں۔ حکومت کے سامنے دو بڑے مسائل ہیں۔ ایک تو سیاسی انتشار پر قابو پانا اور دوسرے ، معاشی مشکلات کو دور کرنا۔ اس حکومت کی ٹرم پوری ہونے میں بہت تھوڑا عرصہ باقی ہے، وہ دور رس اقدامات کرنے سے قاصر ہے ۔ اس وجہ سے ملکی سلامتی اور سیکورٹی کو درپیش خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں تعلیم اور صحت برُے حالوں میں ہے ، عام آدمی کے لئے انصاف ناپید ہوچکا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ یقینایہی وہ مسائل ہیں جن کی طرف ڈاکٹر محمود شوکت صاحب نے توجہ مبذول کروائی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے میڈیا کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی اور اس پر ہمہ پہلو کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے ۔ ان کی بات چاہے ہمیں کڑوی لگے، لیکن اس کی سچائی میں کوئی کلام نہیں ۔ قومی میڈیا کو یک رخا ہوکر نہیں رہ جانا چاہئے ،بلکہ اسے ایک ہمہ جہت پالیسی اختیار کرنی چاہئے ۔ اس وقت اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ہرلمحے ایک آدمی کا نام حاوی ہے۔ لیکن اس کے بار بار تذکرے سے نہ تو فاقہ مست عوام کی بھوک مٹ سکتی ہے ، نہ لاچار مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات میسر آسکتی ہےں۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس سیاسی پاگل پن سے چھٹکارا حاصل کریں اور اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کے سنگین اور گھمبیر مسائل کی طرف توجہ مبذول کریں،اور ان کا کوئی ٹھوس ،پائیدارحل تلاش کریں۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر محمود شوکت صاحب کی اسپرٹ یہی ہے ۔
میں آخر میں قارئین کرام کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر محمود شوکت کے دادا مرحوم ملک برکت علی آزادی سے قبل متحدہ پنجاب اسمبلی میں قائد اعظم ؒ کے واحد سپاہی تھے،جو دس برس تک آل انڈیا مسلم لیگ کی آواز بلند کرتے رہے ۔اس لحاظ سے وہ ہمارے لئے انتہائی واجب الاحترام شخصیت ہیں۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کے منتخب ایوان میں غیرمسلموں کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ جوکہ انگریز سامراج کے گماشتے بنے ہوئے تھے ۔
٭٭٭