قومی اسمبلی کا فورم چھوڑکر کیا ملا
رواں دور ہماری تاریخ میں ایک اور گرے ایریا کے طور پر ریکارڈ ہو رہا ہے جہاں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کرے۔عمران خان حکومت میں تھے تو ایک متنازعہ رجیم چینج کا مرحلہ
سب نے دیکھا۔ پاکستانی سفارت کا ر کا سائفر اور تحریک انصاف کے مختلف الخیال اتحادیوں کا حکومت کا ساتھ چھوڑنا اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد ارکان کی طرف سے اپنی قیادت یعنی عمران خان کے خلاف اکٹھے ہو کر خاص طور پر سندھ ہا?س میں پناہ گزین ہونا ایک ایسے ماحول کی بنیاد بنا جس نے تحریک انصاف کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دیا اور ان کی مقبولیت کا گراف دیکھتے ہی دیکھتے بلندی کی طرف جانے لگا۔ اب تو سابق چیف جنرل ر باجوہ تسلیم کر رہے ہیں کہ جب فوج نے سائڈ بدلی تو احتیاط سے جو کچھ ہونا چاہئیے تھا وہ نہیں ہوا۔ ایک طرف اگر اس اہم مرحلے پر یہ سب غلطیاں ہوئیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت نے بھی جذباتی فضا میں کچھ غلط فیصلے کئے جن کا اب انہیں احساس ہورہا ہے لیکن اس درویش نے انہی دنوں کہا تھا کہ عمران خان کوقومی اسمبلی سے مستعفی نہیں ہوناچاہئیے۔ جمہوریت میں سارے فریق دا? پیچ استعمال کرتے ہیں۔ سارے فریق مختلف پاور کارنرز کو بھی استعمال کرتے ہیں۔فیلڈ میں رہ کر مقابلہ کرنا اچھا لگتا ہے اور جمہوری عمل میں ہر طرح کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں لیکن۔
کون سنتا ہے فغان درویش
شائد اس لئے بھی اس خاکسار کی بات پر کسی نے توجہ نہیں دی کہ ہمارا کسی سے نہ تعلق نہ لینا دینا۔باقی رہی بات مشورے کی تو محبی مجید نظامی جوہماری تربیت بھی کیا کرتے تھے تو کبھی کبھی وہ بھی ہم سے کسی اہم بات پر مشورہ لے کر یہ سکھایا کرتے تھے کہ مشورہ ہر اک کا سننا چاہئیے کیونکہ کوئی بھی اچھی بات کرسکتا ہے۔چنانچہ جہاں جس کی غلطی سامنے آتی ہے وقت پر اس کی نشان دہی کرتے رہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پی ڈی ایم کی قیادت کی پالیسی کے تحت تحریک انصاف کی ایوان میں واپسی کی ایک اور درخواست مسترد کر دی ہے۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے چیف وہیپ عامر ڈوگر نے اسمبلی میں واپسی کے لیے اسپیکرقومی اسمبلی سے رابطہ کیا ،عامر ڈوگر نے عدالتی فیصلوں کی کاپی کے ساتھ سپیکر سے ایوان میں واپس آنے کی درخواست کی تھی۔ اس سے پہلے تحریک انصاف سیکرٹری جنرل اسد عمر اور پارٹی کے سینئر قائدین عدالتوں کے فیصلوں کے ساتھ سپیکر سے ملاقاتیں کردیکھ چکے۔اب حکومت اپنے حربے استعمال کر رہی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے اراکین کی واپسی ہوتی ہے تواپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی جگہ تحریک انصاف کا اپوزیشن لیڈر آ جائے گا۔ پھر وہ سب کچھ شائد اس طرح نہ ہوسکے جس طرح حکومت چاہتی ہے۔ ایک آنکھ مچولی جاری ہے جس کا نقصان جمہوریت اور عوام کوہورہا ہے۔
اس وقت کی جمہوری عمارت پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
خشت اول چوں نہاد معمار کج
تا ثریا می رود یوارکج
جب معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار ثریا تک بھی اونچی ہو جائے تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ میدان کو خالی چھوڑنے کے فیصلے وہی کرتے ہیں جن کی کم از کم اپنی ملکی تاریخ پر نظرنہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ماضی مختلف مواقع پرجمہوری عمل میں میدان خالی چھوڑ کر بڑی دیرتک اس کا خمیازہ بھگتتی رہیں۔ حالیہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر ایم کیو ایم نے میدان خالی چھوڑا اور نتیجہ سامنے ہے۔ تحریک انصاف کی تو قومی اسمبلی میں ان کی پارٹی کے ارکان کی بےوفائیوں کے باوجود ایک بڑی تعدا د تھی نہ جانے کس نے کیوں تحریک انصاف کی قیادت کو قومی اسمبلی کا فورم خالی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ پہلے تو پی پی پی کے راہنما بلاول بھٹو سمیت بعض حضرات ان کو واپس آنے کا کہتے رہے مگراب شائد گیم کے قواعد بدل رہے ہیں اور اب شائد واپسی کے دروازے بند کردئے گئے ہیں لے دے کے اب سیینٹ رہ گئی ہے۔ چنانچہ اب جب کہ کھیل نازک مرحلے میں داخل ہوگیاہے اور پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں آئین کے تحت انتخابات کے التوا کے باعث حکومت پارلیمانی سطح پر کوئی پتہ استعمال کر نے کی سوچ رہی ہے توپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام سینیٹرز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کریں گے اپنی قیادت کے اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے جمعرات کو اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں کو ایک پریس کانفرنس میں آگاہ کیا۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی جانب سے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا جارہا تھا لیکن اب یہ فیصلہ تبدیل کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایوان مکمل طور پر حکومتی ارکان کی دسترس میں ہے حکومت بغیر روک ٹوک بآسانی ’کوئی فیصلہ منوانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس سے پہلے بدھ کو ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے قومی اسمبلی میں اپنے طویل ترین خطاب جو کم وبیش ایک گھنٹے کے دورانیے پر محیط تھا سابقہ حکومت کے حوالے سے بہت کچھ کہدیا تھا کوئی مداخلت کرنے والا نہ تھا جس سے تحریک انصاف کی قیادت کو شائد پہلی باراحساس ہوا کہ پارلیمنٹ کا فورم خالی چھوڑنا ان کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوا چنانچہ تحریک انصاف کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ایوان میں حکومت کو اپنا موقف پیش کرنے کیلئے ”فری ہینڈ“ دینا سیاسی خسارے کا سودا ہے اور انہوں نے تحریک انصاف کے سینیٹرز کو اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔ اب 27 مارچ کو ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اگر پی ٹی آئی کے سینیٹرز شرکت کرتے ہیں تو پھر یقیناً ہنگامہ آرائی، شور شرابہ، ہلڑ بازی اور آخر میں ایوان سے واک آ?ٹ کے مناظر دیکھنے میں آئیں گے۔ اس تاریخ کو ویسے بھی خان اسلام آباد میں ہوں گے مگر وہ پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ عدالتوں کے چکرمیں ہوں گے۔ اگر پارلیمنٹ کو پہلے دن خالی نہ چھوڑا جاتا تو شائد ہماری تاریخ کے بہت سے تلخ وقعات رونما ہی نہ ہوتے جمہوری عمل بھی جاری رہتا اورخان کی مقبولیت کی لہر بھی اسی طرح اٹھتی۔ تمام اسمبلیاں بھی کام کر رہی ہوتیں اور یہ جو مقدمات کاکھیل ہے اوریہ جو معاشی اور معاشرتی تلخیاں ہمارا مقدربن گئی ہیں یہ بھی اتنی شدت سے سامنے نہ آتیں۔
غلطیاں سب نے کی ہیں اور اب بھی غلطیاں سب سے ہو رہی ہیں۔اگر ماضی میں عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دے کرغلطی کی تھی تو اب پی ڈی ایم ان کی نیت پر شک کرکے غلطی کررہا ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اب پی ڈی ایم کی سپاہ اپنی تلوارنیام میں ڈال لے۔ تحریک انصاف کی قیادت اپنی زبان کوجمہوری عمل سے ہم آہنگ کرے اور سارے سیاستدان اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ ملک و قوم کی خاطر انہیں ایک دوسرے کومعاف کرنا آتا ہے
٭....٭....٭