اتوار ، 4 رمضان المبارک ، 1444ھ، 26 مارچ 2023ئ
سندھ گورنر ہا¶س میں عوام کے لئے افطاری کا اہتمام
گورنر سندھ کی طرف سے ماہ رمضان میں پورے 30 دن گورنر ہا¶س میں افطاری کا اہتمام ایک بہت اچھا عمل ہے۔ باقی صوبوں کے گورنر بھی اگر اس کی پیروی کریں تو وہ بھی کامران ٹیسوری کی طرح ثواب کما سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ اتنے بڑے محلات کس کام کے۔ بیکار پڑے رہنے سے بہتر ہے کہ ان کو اچھے کاموں کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر گورنر سندھ پورے کراچی کو گورنر ہا¶س قرار دیتے ہوئے اس ماہ مبارک میں حکومت اور مخیر حضرات کے تعاون سے شہر بھر میں مفت افطاری کا اہتمام کراتے۔ کراچی غریب پرور شہر تھا اور ہے آج بھی سب سے زیادہ صدقات و خیرات کرنے کا اعزاز کراچی کو حاصل ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ جو لوگ راہ خدا میں بانٹتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کمائی اس ماہ مقدس میں قیمتوں کی اشیاءبڑھا کر وہ بھی بے حساب شرح سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ اگر ہمارے یہ بھائی اس ماہ ہاتھ کھلا رکھیں تو سب روزہ دار سکون سے اپنے گھروں میں افطاری کر سکتے ہیں۔ اب ثواب کمانا اپنے ہاتھ میں ہے۔ دیکھتے ہیں کون روزہ داروں کے لئے باعث رحمت بنتا ہے اور کون باعث زحمت۔ دنیا بھر میں کیا مسلم کیا غیر مسلم، سب دکاندار اور سرکاری و غیر سرکاری مارکیٹوں میں ماہ رمضان پر خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں۔ہر شہ پر کہیں 20 فیصد کہیں 50 فیصد تک رعایت ملتی ہے ۔ یہ ہوتی ہے نیکی کمانے کی راہ۔ کاش ہم سب بھی اس راہ پر چلیں۔ اب کراچی والے جو مستحق ہیں وہ گورنر سندھ کے اعلان کے بعد گورنر ہا¶س میں جا کر ان کی افطاری سے ضرور لطف اندوز ہوں۔ ہاں بس دھیان رہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں اور کاروں میں آنے والوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ وہ اپنے گھروں میں ایسی افطاریوں کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔ اب گورنر صاحب کو دیکھتے ہوئے کیا معلوم وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر وزراءبھی اپنے اپنے علاقوں میں بھی رمضان میں افطاریوں کا بندوبست کریں تو لوگ انہیں دعائیں دیں گے۔
٭....٭....٭
ملک میں 1000 سی سی سے کم پاور کی گاڑیوں کی فروخت میں 39 فیصد کمی
مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر متوسط اور غریب طبقے پر پڑتا ہے۔ اس لئے وہ اشیاءجو ان کی دسترس میں ہوتی ہیں، وہ بھی یہ خریدنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ بڑے اور متمول لوگوں کا کیا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی گرانی کی لہر سے پریشان ہوا ہو گا۔ ہاں ٹیکس بچانے کے لئے مزید مراعات حاصل کرنے کے لئے وہ رونا دھونا کرتے ہیں۔ اگر ان پر کوئی اثر ہوتا، اس نامراد مہنگائی کا تو کم از کم اس خبر میں یہ بھی ضرور درج ہوتا کہ لگژری مہنگی گاڑیوں کی فروخت میں بھی ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ مگر دیکھ لیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ قیمتی لگژری گاڑیوں کی ڈیمانڈ اور فروخت اسی طرح جاری ہے حالانکہ یہی گاڑیاں سب سے زیادہ پٹرول پھونکتی ہیں۔ مگر چونکہ یہ پیسوں والوں کے زیراستعمال ہوتی ہیں تو اس اعلیٰ طبقے پر پٹرول کی قیمت میں اضافہ کا اثر بالکل نہیں ہوتا۔ ہاں جو بے چارے متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں وہ براہ راست گاڑی مہنگی ہو یا پٹرول دونوں صورتوں میں بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ یہ جو ہزار سی سی سے کم پاور والی گاڑیاں ہیں ان کی طرف بڑے لوگ چاہے سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ان کے لائف سٹائل اور سٹیٹس سے میل نہیں کھاتیں۔ غریب خریدتے نہیں متوسط طبقہ جو ان معمولی گاڑیوں کا خریدار تھا، ان میں اب سکت نہیں رہی جس کی وجہ سے ان گاڑیوں کی فروخت میں 39 فیصد ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ شاید اسی وجہ سے چھوٹی گاڑیاں بنانے والے غیر ملکی کارخانے جو پاکستان میں کام کر رہے ہیں یا تو اپنی پیداوار نصف کر رہے ہیں یا انہوں نے اپنے پلانٹ بند کر دیئے ہیں۔ چلیں اس طرح امیروں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑے گی کہ ا ان کے علاوہ کوئی لگژری تو کیا عام گاڑی یعنی کار بھی استعمال نہیں کرے گا۔ وہی صاحب کار ہوں گے اور باقی سب بے کار ۔۔۔۔۔
٭....٭....٭
افغانستان نے پہلی مرتبہ انٹر نیشنل کرکٹ میچ میں پاکستان کو شکست دیدی
انٹر نیشنل میچ وہ بھی کرکٹ کا ہو اور اس میں پاکستان اگر افغانستان سے ہار جائے تو افسوس کرنا بنتا ہے۔ جس ملک کے لڑکوں کو ہمارے شہروں کے گلی محلوں میں بیٹ پکڑنا اور گیند کرانا عام کرکٹ کلبوں نے سکھایا ہو ان سے ہماری انٹر نیشنل ٹیم کی ہار باعث شرم ہے۔ بے شک اس وقت پاکستان کی ٹیم شارجہ میں کھیلنے گئی ہے جس میںنئے کھلاڑیوں کی کثرت ہے۔ چلیں یہ تو ٹھہرے جونیئرز مگر ساتھ جو سینئرز ہیں انہوں نے اپنے سر پر کونسا بوجھ اٹھا رکھا تھا کہ ان سے نہ گیند ہو رہی تھی نہ بلا چلایا جا رہا تھا اور فیلڈنگ تو پرانی بیماری ہے اس کا ذکر ہی چھوڑیں۔ بیرون ملک جب کھلاڑی جاتے ہیں تو دل و جان سے کھیلتے ہیں،جان توڑ مقابلہ کرتے ہیں مگر یہ شارجہ میں قومی ٹیم نے جس طرح 20 اوورز میں صرف 92 رنز بنائے وہ باعث شرم ہیں اس طرح تو انہوں نے خود ہی میچ کی فتح پلیٹ میں رکھ کر افغان کھلاڑیوں کو پیش کردی۔ اور کچھ نہیں تو ہمارے کھلاڑی کم از کم افغان کھلاڑیوں سے ہی سبق حاصل کریں۔ انہوں نے کس بے جگری کا مظاہرہ کیا۔ سونے پر سہاگہ یہ بھی ہے کہ حسب عادت افغان تماشائی اپنی ٹیم کی حمایت سے زیادہ پاکستانی کھلاڑیوں پر ہوٹنگ کرتے نظر آئے۔ یوں لگ رہا تھا گویا وہ کسی دشمن ملک سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ تو ان کا غیر دوستانہ رویہ سب دیکھتے ہیں۔ اسی کے سبب کم از کم ہمارے کھلاڑی ہی کچھ ہمت دکھائیں تو آئندہ دو میچ جیت سکتے ہیں۔ ابھی پاکستان کرکٹ پر اتنا برا وقت نہیں آیا کہ افغان ٹیم اسے دھول چٹائے ۔۔۔
٭....٭....٭
مودی کے خلاف بیان پر سزا کے بعد لوک سبھا نے راہول گاندھی کو نااہل قرار دیدیا
کہاں وہ بھارت جو عالمی سطح پر خود کو جمہوریت کا دیوتا کہلاتے نہیں تھکتا۔ کہاں یہ حالت کہ انتہا پسند وزیراعظم پر تنقید کرنے کے الزام میں بھارت کی بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو عدالت نے ہتک عزت کا مجرم قرار دیا تو بھارتی لوک سبھا (پارلیمنٹ) نے فوری طور پر ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ لگتا ہے لوک سبھا میں جہاں بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کی اکثریت ہے انتظار میں تھی کہ کب عدالت انہیں مجرم قرار دیتی ہے اور وہ فوری طور پر راہول گاندھی سے جان چھڑائے۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل راہول گاندھی بھارت میں ملک جوڑ و نام سے عوامی تحریک چلانے نکلے ہیں مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ مودی حکومت وزیراعظم پر تنقید کے الزام میں انہی کا پتہ کاٹ دے گی۔ اب دیکھتے ہیں بھارت میں جہاں پہلے ہی سیاسی خلفشار عروج پر ہے خاص طور پر خالصتان کے حامی سکھ رہنما امرت پال کی گرفتاری یا گمشدگی نے پنجاب میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ اب کانگریس والے بھی اگر سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے تو ”تیرا کیا بنے گا کالیا“ بھارت کے عوام اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اندولن (احتجاج) سے بھاگیں۔ جن علاقوں میں کانگریس جیتی ہے جہاں ان کے حامی موجود ہیں وہ تو اپنے قائد کی گرفتاری پر خاموش نہیں رہیں گے۔ نریندر سرکار کی ان کارروائیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عدالتوں اور لوک سبھا پر حاوی ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے کروا سکتی ہے۔ یوں اس کا جمہوری نقاب اترتا جا رہا ہے۔ ۔۔۔