• news

عمران خان کے دس نکات اور سیاسی مفاہمت کے تقاضے


معاشی عدم استحکام نے تو ملک کو گھیرا ہی ہوا ہے اس کے ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی موجود ہے جو معاملات کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کسی بھی طور حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے جس کی وجہ سے الجھاو¿ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے عمران خان نے نہ صرف پاور شو کیا بلکہ اپنا دس نکاتی منصوبہ بھی پیش کیا۔ اپنے خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت آئی تو ہم سیاچن، معیشت، سرمایہ کاری، برآمدات، اداروں کی ری سٹرکچرنگ، جوانوں کے لیے آسان قرضے، سستے مکان، زراعت، نجی آبادیوں کے لیے منصوبوں پر کام کریں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا ہے کسی کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں۔ قرضوں کی اقساط بڑھتی جارہی ہیں۔ دوسرا مسئلہ ملک میں ڈالر کی کمی ہے۔ پاکستان میں سرجری کرنا پڑے گی۔ ملک کا گورننس سسٹم ٹھیک کرنا پڑے گا، اس کے لیے رول آف لاءلانا پڑے گا۔
قانون کی حکمرانی یقینا کسی بھی ملک اور معاشرے کو چلانے کے لیے بہت ضروری ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دیگر قائدین ہی نہیں، خود عمران خان بھی قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے۔ اسی لیے وہ عدالت کے حکم پر پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے کارکنان کو اکٹھا کر کے یہ تا¿ثر دیتے ہیں کہ وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ انھیں شاید اندازہ نہیں کہ ایسے اقدامات کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل رہا ہے اور عام آدمی کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ قانون صرف کمزور کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حرکت میں آتا ہے، طاقتور شخص کوئی بھی جرم کر لے قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عمران خان اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے قائل ہیں تو انھیں خود ایک مثال بن کر لوگوں کو بتانا پڑے گا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ خود کو قانون سے ماورا سمجھے۔
انھوں نے اپنے خطاب کے دوران درست کہا کہ اوورسیز پاکستانی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور گورننس اور انصاف کا نظام ٹھیک کر لیں تو اوورسیز پاکستانیز ملک میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ملک میں ڈالر لانے والے کو وی آئی پی بنائیں گے۔ چین کے ساتھ مل کر عمران خان نے زراعت کو ٹھیک کرنے کی جو بات کی ہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ ہمارے ہاں اقتدار سے باہر رہ کر سیاست دانوں کی طرف سے بہت سے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں انھیں اپنے دعوے اور وعدے سب بھول جاتے ہیں۔ عمران خان کو بھی تقریباً پونے چار سال کا وقت ملا تھا لیکن اس دوران انھوں نے جو کچھ کیا اس سے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے سیاسی حریفوں کو تو ملک کی خراب معاشی حالت کے لیے ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں لیکن انھوں نے خود جو غلطیاں کیں ان کا وہ ذکر تک نہیں کرتے۔
سیاسی عدم استحکام کے سلسلے میں عمران خان نے دوسروں سے بڑھ کر حصہ ڈالا ہے۔ انھوں نے غیر ملکی سازش کا بیانیہ گھڑ کر نہ صرف اپنے کارکنوں کو اکسایا بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔ ان کی حکومت کو آئین میں موجود طریقہ کار کے مطابق ہٹایا گیا تھا لیکن وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ حالیہ جلسے کے دوران بھی انھوں نے اپنے خطاب میں یہی کہا کہ سازش کے تحت ملک کو دلدل میں پھنسایا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان اس قسم کے بیانات دے یا باتیں کررہے ہیں وہ اس حوالے سے خوب شہرت رکھتے ہیں کہ ان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا جاتا ہے، پھر بار بار اس پر زور دیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک سیاسی بیان تھا۔ ایک سیاسی قائد کو جس سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ عمران خان کے ہاں بہت ہی کم دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین بھی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اور ان کی جانب سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو کسی بھی طور مناسب قرار نہیں دی جاسکتی۔ حالیہ جلسے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ غدارِ وطن مینارِ پاکستان جیسی پاک جگہ کو اپنے جھوٹ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اپنے ایک بیان میں رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے ایجنٹ کو مینارِ پاکستان پر جلسے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، پہلے امریکی لابی فرموں سے تو حقیقی آزادی حاصل کر لو۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر اس حوالے سے کہا کہ آج حقیقی آزادی کا جنازہ مینارِ پاکستان میں پڑھا گیا۔ فتنے، فسادی اور دہشت گرد سے حقیقی آزادی دلوانے کا وقت آ گیا ہے۔
سیاسی قیادتوں نے اس وقت جو رویے اختیار کیے ہوئے ہیں وہ ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انھی رویوں سے عوام کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے مخالف کے خلاف کسی بھی حد تک جانا جائز ہے۔ سیاست دانوں کے اپنے ان رویوں کو بدلنا چاہیے اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اکیلی ملک کے تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہی ہے۔ اس وقت موجود سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی قابلِ ذکر جماعت ایسی نہیں جو اقتدار میں نہ رہ چکی ہو لیکن اس کے باوجود مسائل کا انبار لگا ہے جو اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ سیاسی قیادت متحد ہو کر مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرے۔

ای پیپر-دی نیشن