آخر کب تک؟
2012ءکے بعد ملکی سیاست میں رواداری دم توڑ ہوچکی ہے۔ پالیٹیکس مولاجٹ کی دھمکیوں سے زہر آلود ہوچکی ہے۔برداشت جواب دے چکا ہے۔نوبت گلے کاٹنے اور ڈنڈے برسانے تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی میدان میں گر کوئی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے تو اسے بزدلی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ اخلاقیات کو ناکامی تصور کیا جاتا ہے اور سنجیدگی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔سیاست میں اتنی بڑی تباہی کا سفر ٹھیک اس وقت شروع ہوا جب اس اہم پیشے میں لفظ جناب کی جگہ اوئے نے لی۔ محترم کے بجائے چورچور کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔ مخالفین کو ڈاکو قرار دیا جانا لگا۔سیاسی حریفوں پر کرپشن سمیت دیگر کئی بے جا الزامات لگانے کا فیشن چل نکلا۔بات یہاں نہیں رکی کل تک جو مشکل ترین صورتحال میں برداشت کا دامن تھام لیتے تھے وہ بھی اب کمر کس کرجواب دینے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ یوں تو اور تم کی تکرار سے سیاسی فضا رنجیدہ اور افسردہ ہوگئی۔
سیاسی جلسے اور پریس کانفرنس میں بڑھکیں مارنے اور دوسروں کو دھمکانے کا نتیجہ کیا نکلا اس کا مظاہرہ لاہور اور اسلام آباد میں دیکھا گیا۔ادارے اور عوام آمنے سامنے آئے اور چشم فلک نے ایسے مناظر دیکھے جن کا معاشی بدحالی کا شکار پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ پڑوسی ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پارلیمنٹ نے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کو وزیراعظم نریندری مودی کو ہتک آمیزی کا نشانہ بنانے پرنااہل قرار دےدیا۔ حالانکہ کانگریس کے رہنما نے براہ راست مودی پر تنقید نہیں کی تھی۔ انھوں نے دو سال قابل بھارت کے دو بڑے تاجروں جن کے سرنیم مودی ہے کو چور قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہر مودی چور کیوں ہوتا ہے۔ بھارتی عدالت نے راہول گاندھی کو سزا سنائی تو بھارتی جنتا پارٹی نے معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھا تو راہول گاندھی کو بڑی سزا مل گئی۔ یوں بھارتی پارلیمنٹ نے جمہوری روایات کی پاسداری کرکے لمبی زبان والے سیاستدانوں کویہ پیغام دے دیا کہ سیاست سے اہم اخلاقیات ہے۔ جو اس حد کو عبور کرنے کی کوشش کرے گا وہ اس ایوان کا اہل نہیں رہے گا۔بھارت پاکستان سے زیادہ دور نہیں۔ اگروہاں عدالتیں اور پارلیمنٹ زبان درازوں کی زبان کھینچ لیتی ہیں تو ہمارے ہاں کسی پر الزامات لگانے چور اور ڈاکو کہنے پر سزا کیوں نہیں دی جاتی۔
دوسری سیکرٹری پٹرولیم کے بیان نے معطل ایم ڈی سوئی نادرن علی جے ہمدانی کی بطور ایم ڈی تقرری ہی کو مشکوک بنا ڈالا۔علی جاوید ہمدانی نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ساتھ ساتھ وفاقی سیکرٹری پٹرولیم کو بھی فریق بنایا ہواہے۔علی جاوید ہمدانی کو 18فروری کو بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کرپشن کی شکایات، اختیارات کے غلط استعمال اور کمپنی کو نقصان پہنچانے معطل کرتے ہوئے نے نجی کمپنی کو135ملین روپے کی بینک گارنٹی دینے کی انکوائری شروع کردی تھی۔ 3 مارچ کو نجی کمپنی نے سوئی نادرن کی 135ملین روپے بینک گارنٹی ضبط کرلی جس سے سوئی نادرن کمپنی کو بھاری نقصان پہنچا۔علی جاوید ہمدانی نے بورڈ کی منظوری کے بغیر نجی کمپنی کو 1ارب روپے پرفارمنس گارنٹی دینے کا بھی معاہدہ کیا۔بورڈ آف ڈائریکٹرز کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں سوئی نادرن 1ارب روپے کے مزید نقصان سے بچ گئی۔علی جاوید ہمدانی نے نجی کمپنی کیساتھ اوچ گیس کمپریشن منصوبے میں بورڈ منظوری کے بغیر شراکت داری کی تھی۔علی جاوید ہمدانی نے بنوں ویسٹ فیلڈ کی گیس کے لیے 52کلومیٹر کی بجائے 270کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی جس سے کمپنی کو 6ارب روپے سے زائدنقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
علی جے ہمدانی کا موقف تھا کہ ان کی تقرری حکومت کی جانب سے کی گئی تھی، لہٰذا صرف وفاقی حکومت ہی انھیں برطرف کرسکتی تھی۔بورڈ آف ڈائریکٹرز کو انھیں معطل کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ان کی معطلی کے فیصلے سے متعلق وفاقی حکومت کی منظوری نہیں لی گئی، لہٰذا بورڈ کے احکامات کو کالعدم قراردیا جائے۔ سیکرٹری پٹرولیم نے اپنے بیان میں موقف اختیار کیا کہ علی جے ہمدانی کو کنٹریکٹ بنیادوں پر ایم ڈی تعینات کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان پر ’ماسٹر اور سرونٹ‘ کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ چنانچہ انھیں صرف وہی حقوق حاصل ہیں جو ان کے تقرری کے کاغذات میں درج ہیں۔ اس بنیاد پر سیکرٹری پٹرولیم نے دائر آئینی درخواست کو ہی خارج کرنے کی درخواست کردی۔سیکرٹری پٹرولیم کے جواب میں مزید کہا گیا کہ ایم ڈی کی تقرری کے لیے تمام کارروائی بورڈ کی جانب سے کی گئی جس کے بعد تین میں سے ایک نام منظوری کے لیے حکومت کو بھیجے گئے تھے۔حکومت نے بورڈ کے بھیجے گئے ناموں میں سے علی جے ہمدانی کا نام منظور کرلیا جس کے بعد بورڈ نے ان کی تقرری کو نوٹیفائی کیا تھا۔ چنانچہ پبلک سیکٹر کمپنیز کے قانون کے مطابق یہ تقرری وفاقی حکومت نے نہیں بلکہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کی۔
اس تقرری کو حکومت کی جانب سے تقرری صرف اس وقت کہا جاسکتا تھا جب حکومت بذاتِ خود علی جے ہمدانی کو ایم ڈی سوئی ناردرن نامزد کرتی۔ ہمدانی کو بورڈ کے فیصلے کے حوالے سے کوئی شکایت بھی تھی تو وہ نقصان کے ازالے کے لیے کیس کرسکتے تھے۔ تاہم اگر کوئی ماسٹر سرونٹ کو مزید رکھنے میں دلچسپی نہ لیتا ہو تواسے ماسٹر پر زبردستی مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ سوئی ناردرن کے ادارے کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو درخواست گزار کی کرپشن پر نظر رکھنے،اس کی تحقیقات کرنے اور کمپنی کے مفاد میں مناسب ایکشن لینے کا پوری طرح مجاز ہے۔سیکرٹری پٹرولیم کے جواب میں کہا گیا کہ علی جے ہمدانی کو برطرف نہیں کیا گیا بلکہ ان سے جنرل پاور آف اٹارنی واپس لی گئی جس کا بورڈ کو مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی شکایت پر علی جے ہمدانی صرف کمپنی کی سطح پر ہی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔ سیکرٹری پٹرولیم کے دبنگ جواب کے بعد علی جے ہمدانی کا کمپنی میں مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے کیونکہ اس جواب کو سننے کے بعد ان کے وکلاءبھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔