اسلام آباد ہائیکورٹ نے 7 مقدمات میں عمران کی عبوری ضمانت منظور کرلی
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی 7 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کرلی۔ عمران خان کی جانب سے اپنے خلاف تھانہ گولڑہ، تھانہ بہارہ کہو، تھانہ رمنا، تھانہ کھنہ اور توشہ خانہ کیس کے لئے جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران ہنگامہ آرائی پر درج مقدمات سمیت 7 مقدمات میں عبوری ضمانتیں حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر کے توسط سے دائر درخواستوں میں کہا گیا کہ اگر عمران کو گرفتار کیا گیا تو انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ واحد سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے یہ خدشہ ہے کہ اگر درخواست گزار کو ضمانت قبل از گرفتاری نہ دی گئی تو ان کے سیاسی مخالفین اپنے مذموم سیاسی عزائم جاری رکھ سکیں گے۔ عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ درخواستوں پر بائیو میٹرک کا اعتراض لگایا گیا ہے، عمر 60 سال سے زائد ہوجائے تو مشکل ہوتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیوں؟ 60 سال کے بعد انگوٹھے کا نشان غائب ہو جاتا ہے؟۔ ابھی تو بہت آسان ہے، کسی بھی ایزی پیسہ دکان سے بائیو میٹرک کرا کر جمع کرائیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میرے مو¿کل کے خلاف مزید 7 مقدمات درج کیے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے کہ ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں کہ ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے، سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ٹرائل کورٹ نہیں گئے، جوڈیشل کمپلیکس آخری پیشی پر گئے تو گیٹ پر 45 منٹ تک روکا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتوں کے فیصلوں کو چھوڑ دیں، صرف اتنا بتا دیں کہ ٹرائل کورٹ کو کیوں چھوڑا؟۔ ٹرائل کورٹ کو بائی پاس کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کیوں آئے؟۔ انہوں نے کہا کہ ’امن و امان کی صورتحال آپ نے برقرار رکھنی ہے، اگر آپ عدالت پیشی پر 10 ہزار لوگوں کے ساتھ لائیں گے تو لا اینڈ آرڈر کے حالات تو ہوں گے۔ درخواست گزار ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور ان کی فالورشپ ہے۔ اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم کسی کو نہیں بلاتے، لوگ خود آتے ہیں۔ اس دوران عمران خان اٹھ کر روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’خان صاحب! آپ جا کر کرسی پر بیٹھ جائیں‘۔ عمران خان نے کہا کہ میں بس وضاحت دینا چاہتا تھا کہ۔۔، اور جملہ پورا کیے بغیر کرسی پر واپس چلے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو سکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، ان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سکیورٹی فراہم کرنے کا کہا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا، عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن ماحول کو یقینی بنائیں، یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر شہری کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست اپنا کام کرے اور حفاظت یقینی بنائے۔ جہانگیر جدون نے کہا کہ ہائی کورٹ میں جو ڈیکورم ہے وہ وہاں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سکیورٹی فراہم نہیں کرتے تو پھر وہ کیا کریں، ہمارے پاس آج ہی ایک پٹیشن آئی کل سنیں گے، عمران خان کی عبوری ضمانت 6 اپریل تک منظور کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں عدالت نے سابق وزیراعظم کی سکیورٹی واپس لینے پر وفاق سے جواب طلب کر لیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے عمران کی مقدمات فراہمی کی درخواست میں سٹیٹ کونسل اور وفاق کی جانب سے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران فیصل فرید ایڈووکیٹ نے کہاکہ ابھی میں کورٹ آرہا تھا ایک کلومیٹر دور روکا گیا ہے، ہمارے لئے پارکنگ بھی بند کر دی گئی، سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ رجسٹرار کو حکم دیں پولیس وکلا کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں خود زگ زیگ سے کینٹینر سے ہو کر آیا ہوں، آپ کے پارٹی لیڈر آرہے ہیں انہی کے لیے سکیورٹی لگائی ہوئی ہے۔ دوران سماعت فیصل فرید ایڈووکیٹ نے رانا ثناءاللہ کے بیان کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں صورت حال یہ ہے، یہاں پر ضمانت کرا کے نکلتے ہیں، فیک ایف آئی آر میں اٹھا لیا جاتا ہے۔