انتخابات ، جب تک تمام فریق راضی نہ ہوں فیصلہ نہیں کرسکتے : چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پی کے میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی درخواست پر وفاق، الیکشن کمشن اور گورنر خیبر پی کے کو نوٹسز جاری کردیئے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین سے آج (منگل) تک جواب مانگ لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون عوام کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں، آئین اور قانون کی تشریح حقیقت پر مبنی کرنی ہے، خلاءمیں نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا مو¿قف تھا وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی، کیا الیکشن کمیشن کے مو¿قف میں تضاد نہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اور حکومت سے پ±رامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ نگران حکومت کا دورانیہ 90 دن سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں نگران حکومت کی مدت کا تعین کہیں نہیں کیا گیا۔ جس پر علی ظفر نے دلیل دی کہ نگران حکومت کا مقصد الیکشن ہوتا ہے جو 90 روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 90 دن سے 5 ماہ آگے کردیئے جائیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام 5 ججز کے دستخط ہیں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ شامل ہونا معمول کی بات ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انتخابات پرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کیلئے بہت اہم ہے، الیکشن کا عمل شفاف اور پرامن ہونا چاہئے، آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے لیڈرز نے اب تک اس کیلئے کیا کیا ہے؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیس کو 2 سے 3 دن بعد مقرر کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی تک سماعت ملتوی کی جائے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نامزد اٹارنی جنرل مجھ سے ملاقات کرکے گئے ہیں، کل تک نئے اٹارنی جنرل بھی آجائیں گے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انتہائی افسوناک صورت حال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں، تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائے کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟۔ ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا حکومتیں گرانے کے لیے نہیں ہوتی، آئین کی تشریح عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یقین دہانی کیسی ہوگی یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں، عوام کیلئے کیا اچھا ہے کیا نہیں اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔