• news

نواز شریف ، گیلانی سمیت از خود کیسز کے متاثرین کو اپیل کا حق 


اسلام آباد (نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ءمتفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس شروع ہوا تو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی۔ قائمہ کمیٹی رپورٹ چیئرمین محمود بشیر ورک نے ایوان میں پیش کی۔ محسن داوڑ نے بل میں ترمیم پیش کر دی اور وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم کی حمایت کر دی۔ محسن داوڑ نے کہا کہ کراچی کا نسلہ ٹاور بھی ازخود نوٹس کی وجہ سے گرایا گیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ماضی میں184/3 کے متاثرین کو 30دن میں اپیل کا حق دیا جائے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ایک بار کی قانون سازی ہے کوئی پنڈورا باکس نہیں کھلے گا۔ پیپلز پارٹی نے محسن داوڑ کی ترمیم کی حمایت کر دی جس کے بعد ماضی میں 184/3 کے متاثرین کو اپیل کا حق دینے کی ترمیم منظور کر لی گئی۔ قومی اسمبلی میں بل پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سپریم کورٹ یا عدلیہ اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کر رہے۔ سپریم کورٹ کے ججز غلط ازخود نوٹس لیتے رہے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ ایک جج نے حافظ قرآن کو اضافی نمبر دینے پر بھی اعتراض کیا ہے، انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہم آسمانی کتب پر ایمان رکھتے ہیں البتہ تورات، زبور اور انجیل معطل ہوچکے۔ قرآن پاک ہمارا ایمان ہے اور قرآن پاک کا اس طرح موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی رکن صالح محمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی آزاد عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، عدلیہ میں اصلاحات کے حق میں ہے لیکن ڈاکہ ڈالنے کے حق میں نہیں۔ اس بل میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہے، بل کی آڑ میں عدلیہ پر حملہ کیا جا رہا ہے پی ٹی آئی ارکان عدالتی اصلاحات بل پر تقسیم ہوگئے۔ پی ٹی آئی ارکان نے بل کی مخالفت جبکہ منحرف ارکین نے بل کی حمایت کر دی۔ قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے عدالتی اصلاحات بل کی حمایت کر دی۔ راجہ ریاض نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ طور پر عدالتی اصلاحات بل لائی ہیں، عدالتی اصلاحات بل سے عام آدمی کو انصاف ملے گا، ون مین شو کا خاتمہ ہوگا اور عدلیہ مضبوط ہوگی۔ عدالتی اصلاحات بل کے پاس ہونے پر ایڈوانس مبارکباد پیش کرتا ہوں۔منحرف رکن پی ٹی آئی احمد حسین دیہڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں بل پیش کرنے والوں اور پاس کرنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، وکیل ہونے کی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے۔ دیر سے ملنے والا انصاف انصاف نہیں ہوتا، انصاف نظر بھی آنا چاہیے، اگر یہ قانون پاس ہوجائے تو میں سیلوٹ کرتا ہوں۔ منحرف رکن پی ٹی آئی جویریہ ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم قصور وار ہیں اور ہمیں درست فیصلے کرنے چاہئیں تھے، یہ بل کئی سال پہلے آجانا چاہیے تھا اس بل کی ٹائمنگ درست نہیں لیکن اس کی سپورٹ کرتی ہیں۔وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بل فرد واحد کے اختیارات کو سینیئر ججوں میں تقسیم کرنے پر ہے، عدالتوں کے اندر ججوں کی جو اختلافی آواز آرہی ہے وہ سب کے سامنے ہے ذوالفقار علی بھٹو کا کیس تاخیر کا شکار کر کے ان کا عدالتی قتل کیا گیا، ضیاءالحق نے عدلیہ کے سارے اختیارات ایک فرد واحد کو دیئے۔سارا کھلواڑ ایک فرد واحد نے کیا جو اس وقت بھی لاڈلہ بنا ہوا ہے، عمران ملک میں لاشیں گرانا چاہتا ہے ہم ایسا نہیں چاہتے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا کیا اس قانون پر نظر ثانی نہیں ہوسکتی، توہین عدالت کے قانون میں نظر ثانی ہونی چاہیے۔ بینچ کی طرف سے نواز شریف کے لیے سسلین مافیا کہا گیا، آج سے 15 سال پہلے ایسی قانون سازی کی کوشش کی۔ پارلیمان اپنا آئینی حق استعمال کر رہا ہے۔ اس ایوان کے پاس مینڈیٹ ہے۔ بھٹو نے 50 سال پہلے کہا طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور آج بھی کہتا ہوں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ ماضی میں منتخب وزراءعظم کے ساتھ جو ہوا اس پر قانون سازی ہونی چاہیے۔ پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ یہ ترمیم بہت مناسب ہے لیکن تین کے بجائے سات جج ہونے چاہئیں کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے میں تین ججز کے فیصلوں سے ہی مشکلات ہوئیں۔نور عالم خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے پیسے جو لوٹتے ہیں انہیں حکم امتناع مل جاتا ہے، بطور چیئرمین پی اے سی جن کے خلاف بھی کارروائی کی کوشش کی انہیں سٹے آرڈر مل گیا۔ یہاں دو مختلف پاکستان نظر آتے ہیں، غریب کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ۔وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ قانون سازی ہمارا حق ہے کسی جنرل یا جج کا نہیں، جو اپنی حدود پار کرتے انکو روکنے کے لیے قانون سازی کا حق رکھتے ہیں، نبی کریم کو رات کی تاریکی میں میراج ہوئی، شب قدر کی بابرکت رات بھی رمضان المبارک میں ہے اور ہمارا سیاسی عروج کا زمانہ رمضان المبارک میں ہے۔ پاکستان کے عوام نے یہ امانت ہمیں سونپی ہے۔ اس سے قبل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا اور ایوان نے بھاری اکثریت سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کر لیا۔جس کے بعد وکلا کی فلاح و بہبود اور تحفظ کا بل شق وار منظوری کیا گیا اور ایوان نے اس کی منظوری دے دی ۔قبل ازیں، قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے اضافی ترامیم کے ساتھ بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ بل میں تجویز دی گئی کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز پر مشتمل کمیٹی از خود نوٹس کا فیصلہ کرے گی جبکہ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق ہوگا۔اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنی ہوگی اور از خود نوٹس لینے کے بعد سماعت بھی تین رکنی بینچ کرے گا جبکہ اس حوالے سے اکثریت کا فیصلہ قابل قبول ہوگا۔قانون کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ یا دیگر کوئی بھی قانون اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔ اضافی ترامیم کے تحت اپیل کا حق زیر التوا مقدمات پر بھی حاصل ہوگا جبکہ اضافی ترمیم کے تحت آئینی اور قانون معاملات پر تشکیل بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔ قبل ازیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس محمود بشیر ورک کی زیر صدارت ہوا، کمیٹی اجلاس میں عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر غور کیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے بھی اس معاملے پر رائے کا اظہار کیا گیا ایک فیصلے پر اختلافی نوٹ کی شکل میں اور یہ محسوس کیا گیا کہ وقت ہے پارلیمان اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے بتایا کہ 184/3 کا 2008 سے 2010 ءتک بے دریغ استعمال شروع ہوا جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوموٹو لینا شروع کیا اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو ججز کے فیصلے سے کافی اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سوموٹو میں ون مین شو نہیں ہونے چاہیے، بار کونسل سمیت حامد خان نے بھی کہا کہ یہ قانون وقت کی ضرورت ہے۔ ایک چیف جسٹس آکر 300۔400 سومٹو لیتے ہیں اور ایک چیف جسٹس دو تین لیتا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد کسی چیف جسٹس نے سامان سے شیشی نکلنے یا گلی میں پانی کھڑا ہونے پر سوموٹو نہیں لیا۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جواب دیتے ہوئے قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد نے کہا کہ سرکاری گیلریوں میں وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران موجود نہیں ہوتے، سپیکر نے کہا کہ میں پہلے ہی اس حوالے سے ہدایت کر چکا ہوں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرائیں گے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ کراچی میں رمضان المبارک کے ایام میں گیس کی قلت کا نوٹس لیا ہے، توقع ہے کہ جلد ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل میں محسن داوڑ کی ترمیم شامل ہونے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو سزا کے خلاف اپیل کا حق مل گیا۔30 دن میں ون ٹائم اپیل کے حق سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ یوسف رضاگیلانی، جہانگیر ترین سمیت از خود نوٹس کیسز کے فیصلوں کے دیگر متاثرہ فریق بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔خیال رہے کہ آج قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل میں محسن داوڑ کی تجویز کردہ ترمیم شامل کرلی گئیں۔ محسن داوڑ نے کہا کہ کراچی کا نسلہ ٹاور بھی ازخود نوٹس کی وجہ سے گرایا گیا، ماضی میں184/3 (از خود نوٹس) کے متاثرین کو30دن میں اپیل کا حق دیا جائے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ایک بار کی قانون سازی ہے اس سے کوئی پنڈورا باکس نہیں کھلے گا۔اس دوران پیپلزپارٹی نے محسن داوڑ کی ترمیم کی حمایت کر دی اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نے کہا کہ حکومت میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے تحفظات ہوتے ہیں، مگر ہم محسن داوڑ کی ترمیم کی مخالفت واپس لیتے ہیں۔قومی اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی مشاورت ہوئی جس کے بعد محسن داوڑ کی مجوزہ ترمیم منظور کرلی گئی۔ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کے دور میں ازخود نوٹس فیصلوں کے متاثرین کو اپیل کا حق مل گیا۔ ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور سابق چیف جسٹس ثاقب کی جانب سے لیے گئے بالترتیب 207 اور 49 از خود نوٹسز کے متاثرین ایک ماہ کے اندر دائر کرسیکیں گے۔بل کے تحت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضاگیلانی، جہانگیرترین اور نسلہ ٹاور کے متاثرین کو بھی اپیل کا حق ہوگا، ازخودنوٹس کیس میں اپیل کاحق پہلے ہونے فیصلوں پر بھی ہوگا۔ذرائع کے مطابق 184/3کے تحت ہونے والے فیصلوں پر اپیل کے لئے ایک ماہ کاوقت ہوگا۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی کو یقین دلایا کہ وقفہ سوالات کے دوران آفیسرز گیلری میں سرکاری افسران کی موجودگی کے مسئلہ کو حل کرائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن