• news

فل کورٹ بنائیں ، موجودہ بنچ قبول نہیں : نواز شریف 


 لندن (نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ الیکشن سے متعلق کیس میں فل کورٹ کسی ٹرک یا ریڑھی والے کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے، اس بینچ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ الیکشن کیس سے متعلق سب فل کورٹ بنانے پر متفق ہیں کیونکہ یہ ٹرک یا ریڑھی والے کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ لہذا فیصلے زبردستی ٹھونسنے سے گریز کیا جائے۔ واضح ہے کہ جب ہمیں بینچ ہی قبول نہیں تو ا±س کا فیصلہ کیسے قبول کرسکتے ہیں؟۔ن لیگ کے قائد نے کہا کہ فل کورٹ کا فیصلہ سب کو قبول ہوگا اور ہمیں بھی اس پر اعتماد ہے مگر تین رکنی بینچ کی باتیں چل رہی ہیں، اس کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہیں انہیں قوم سمجھے اور آنکھیں کھول کر دیکھے کہ اس کے ساتھ کیا مذاق ہورہا ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ قوم کو ان ہی بینچوں کے فیصلوں نے تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے اور آج بھی یہ مرضی کے فیصلے قوم پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ مگر ہم پاکستان کو کسی بھی صورت تباہی سے دوچار نہیں ہونے دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ایسے فیصلوں سے پاکستان کو بچائے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنی رائے کا اظہار کرکے عدالتی اصلاحات بل منظور کیا اور اب اسے منظوری کیلئے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا ہے۔ ثاقب نثار اور دیگر ریٹائرڈ ججز قوم کو بتائیں کہ مجھے کیوں نکالا تھا۔ 2017ءمیں کیا ایسے حالات تھے؟ ہمارے دور میں دہشت گردی ختم ہوگئی تھی۔ نواز شریف نے کہا کہ ماضی میں عمران خان کے حق میں فیصلے کر کے قوم کو مقروض کردیا گیا، آج ایک ایک ڈالر مانگنے پر مجبور ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نے سوال کیا کہ ’کیا جنرل باجوہ کی باتوں پر کیا ازخود نوٹس نہیں ہونا چاہیے؟۔ کیا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور میری سزا کیخلاف ازخود نوٹس نہیں ہونا چاہیے؟۔ انہوں نے کہا کہ پہلے جس شخص کے لیے سارے فیصلے کیے گئے اس کا نام عمران خان ہے، کیا عدلیہ کو صرف عمران خان کیلئے فیصلے کرنے ہیں۔ کیونکہ آج بھی ایک شخص کی خاطر فیصلے کیے جارہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی آنکھوں میں آنسو اگر اللہ کے ڈر سے آئے تو یہ اچھی بات ہے۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ اس بینچ میں تو دو جج وہ ہیں جنہوں نے میرے خلاف فیصلہ دیا۔ لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل پاکستان اور سول سوسائٹی سب کہہ رہے ہیں تو پھر کس بات کا اصرار ہے، یہ قومی معاملہ ہے، کسی ٹرک ، ریڑھی والے یا پلاٹ خالی کرانے کا ایشو نہیں، 2017 میں بھی اس قسم کا بینچ بنا تھا جس کی وجہ سے ملک کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے، 2017 کے بعد دیکھیں آپ کے ساتھ کیا ہوا، پہلے آپ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں بجلی کا بل کم تھا، ہم نے لوڈشیڈنگ کا بھی خاتمہ کیا، ملک میں موٹرویز بن رہی تھیں، ملک میں دہشتگردی ختم ہورہی تھی، ہمارے دور میں زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر تھے، آج ایک بلین ڈالر کے لیے ہمیں درخواست دینا پڑتی ہے۔ ثاقب نثار اور دیگر ریٹائرڈ جج قوم کو بتائیں گے کہ مجھے کیوں نااہل کیا گیا۔ سونا فی تولہ دولاکھ روپے سے بڑھ چکا، غریب آدمی بیٹی کی شادی کیسے کرے گا، غریب آج دوائی کے بل نہیں ادا کرسکتے، جائیداد بیچنی پڑتی ہے، آپ کو کوئی خیال نہیں، آپ نے کبھی اس بات پر سوموٹو لیا جو شوکت صدیقی نے باتیں کی۔ امید ہے کہ اللہ ایسے فیصلوں سے ملک کو بچائے گا۔ تین کے بنچ میں کیا مصلحت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں نے اچھی بھلی قوم کو بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ جو آج ہو رہا ہے‘ مجھے 2017ءکا تسلسل لگ رہا ہے۔ لوگ 2017ءمیں پیٹ بھر کے روٹی کھاتے تھے۔ قوم اپنی آنکھیں کھولے‘ بڑا گھناﺅنا مذاق ہو رہا ہے۔ فیصلے ملک کو پتہ نہیں کہاں لے جائیں گے۔ ابھی جو فیصلہ کرنے جا رے ہیں‘ کھڑے ہو جائیں۔ اگر خدانخواستہ فیصلہ آیا تو ڈالر 500 کا ہو جائے گا۔ یہاں پر ایک بندے کی سیاست ہو رہی ہے۔ نوازشریف کے خلاف غلط فیصلہ سنایا گیا تھا۔ قوم فیصلہ کر لے کوئی ایسا کام نہیں ہونے دینا جو ملک کو تباہی سے دوچار کرے۔ شوکت صدیقی کی بات سچ تھی، انصاف دینے کی بجائے فارغ کردیا۔

ای پیپر-دی نیشن