• news

فل بنچ کی استدعا مسترد ، حکومت ، اپوزیشن مذاکرات نہ ہوئے تو آئینی کردار ادا کرینگے : چیف جسٹس 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) پنجاب، کے پی کے انتخابات کیس، سپریم کورٹ نے حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو سوموار کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پرامن انتخابات کیلئے وسائل کی ضرورت ہوئی تو اس کا حکم دیں گے، افواج پاکستان کو بلانا پڑا تو بلائیں گے۔ جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ میں شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دینا تھا۔ پنجاب، کے پی کے انتحابات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی نئے تشکیل دیے گئے بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ سماعت کے آغاز میں ہی پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی حسن پاشا پیش ہوئے اور چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو بعد میں سنیں گے۔ حسن رضا پاشا نے کہا بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس سے پاکستان بار کونسل نے استدعا کی کہ اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس ہی بلا لیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں۔ ججز کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں۔ کل اور آج دو ججوں نے سماعت سے معذرت کی۔ باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی ہوئی ہے اورکچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے۔ سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرسنز سے تیل ڈالا گیا۔ مگر عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں۔ کچھ دوسرے ججز پر تنقید کررہے ہیں۔ ہم اس معاملہ کو بھی دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے نمائندوں سے مزید کہا کہ اس معاملہ پر مجھے چیمبر میں ملیں، آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں۔ چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے۔ مزید کہا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں۔ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کردیتے ہیں، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا۔ توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ صدر نے نوے دن کی مدت کے پندرہ دن بعد تاریخ دی۔ صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے۔ صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔ عدالت کے سامنے مسئلہ آٹھ اکتوبر کی تاریخ کا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہورہی ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے۔ اور اگر مذاکرات نہیں ہوتے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو کہیں گے کہ بااختیار فیصلہ ہے۔ ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ 20 ارب کی اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں۔ اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔ عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں ۔ اٹارنی جنرل نے ستائیس فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا۔ اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، چیف جسٹس بولے کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہئے۔ اٹارنی جنرل کو ایک دفعہ پھر مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں۔ فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا۔ عدالت نے بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔ موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے۔ اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔ نو رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا تھا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ دو سال جسٹس فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا۔ تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔ عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا۔ چیف جسٹس نے کہا اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں۔ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں بیس سال کی نسبت بہترین ججز ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا اور اگر میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کیا۔ جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا۔ ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں۔ ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اقبال حمید الرحمان کو استعفی سے روکا تھا۔ جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاﺅں گا۔ چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنے دلائل جلدی ختم کردوں گا، الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اسی دوران روسٹرم پر آئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں۔ روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سنیں گے آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ تین منٹ نہیں بلکہ مختصراً بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کیس کی بات کریں ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے۔ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، اگر بیس ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا۔ پندرہ سو ارب خسارے میں بیس ارب سے کتنا اضافہ ہو گا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لیں۔ رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز سٹیٹ بینک میں ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اکتوبر تک بجٹ خسارہ ختم ہوجائے گا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ امید ہے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوکر فنڈز مل جائیں گے، موجودہ مالی سال میں الیکشن کا نہیں سوچا تھا، کیا عدالت اس موقع پر فل کورٹ کی استدعا قبول کرے گی؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ لگتا ہے آپ جذباتی ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو وقت درکار ہے تو فراہم کردیں گے۔ اٹارنی جنرل نے دوبارہ پھر کہا کہ عدالت اس دوران فل کورٹ کی استدعا پر غور کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی، جو قیمتی وقت گذر چکا مزید ججز شامل کرنے سے ضائع ہوگا۔ نئے ججز کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعدادو شمار بتائے تھے حکومت سے تصدیق چاہتے تھے۔ جسٹس منیب اختر بولے کہ سپریم کورٹ رولز واضح ہیں کہ 184/3 کے مقدمات دو سے زیادہ رکنی بنچ سنے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے فریقین وہ ہیں جو حکومتیں چلاتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے تین ایشو پر بات کرنے کی ہدایت دی گئی ہیں، سوموار تک فریقین کو سوچنے کا موقع دیا جائے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2021 کے از خود نوٹس والے عدالتی فیصلے کو پڑھیں۔ فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے۔ حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے۔ سپریم کورٹ کہہ چکی چیف جسٹس بینچ بنانے کے ماسٹر ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کو ذکر کرنے کی نہیں تھی۔ عدالت کے باہر درجہ حرارت بہت زیادہ ہے، تمام ججز کے لکھے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کسی مقابلہ حسن میں نہیں عدالت میں بیٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ارکان اسمبلی کے بارے میں ریمارکس کی وضاحت جاری کر دی گئی۔ ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق چیف جسٹس کے کچھ ریمارکس میڈیا پر درست انداز میں رپورٹ نہیں ہوئے۔ انہو نے کہا آئین ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ آئین اس قوم اور معاشرے کیلئے لازمی ہے جو وفاق کو جوڑے رکھتا ہے۔ آئین جمہوریت کو زندہ رکھتا ہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا تھا کہ آپ پارلیمنٹ جائیں تو آپ کو خطاب کرتے ایسے لوگ ملتے ہیں جوکل تک قید تھے۔ غدار قرار دیئے گئے تھے۔ اب وہ لوگ وہاں بات کر رہے ہیںاور ان کوعزت دی جا رہی ہے کیونکہ وہ عوام کے نمائندہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندو خیل کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے لکھتے ہوئے مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی نہ ہی فیصلہ عدالت میں لکھوایا گیا۔ فل کورٹ بنے گی تو دستیاب ورنہ میں اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا۔ جسٹس جما ل خان مندو خیل نے بینچ ممبران سے آئین وقانون پر فیصلہ دینے کی بھی استدعا کی ہے۔ پنجاب، کے پی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس میں جسٹس جمال خان مندو خیل نے دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس امین الدین خان نے کیس سننے سے معذرت کی، جس پر میں بھی اپنی خیالات کا اظہار کرنا چاہتا تھا لیکن چیف جسٹس اور باقی ججز اٹھ گئے، اور میں اپنی رائے کا اظہار نہ کرسکا۔ بنچ اٹھنے کے بعد مناسب وقت تک میں اپنے چیمبر میں کیس کارروائی کے حوالے سے انتظار کرتا رہا مگر چیف جسٹس کی جانب سے مزید کارروائی کی کوئی معلومات نہیں ملی، جس پر میں گھر پہنچا تو چیف جسٹس کی جانب سے دستخط کے لیے حکمنامہ موصول ہوا، حکمنامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا، حکمنامہ بغیر مشاورت کے میری غیر موجودگی میں لکھوایا گیا، عدالتی حکمنامہ میں لکھا گیا کہ تین ججز اس جسٹس فائز عیسی کی جانب سے دیئے گئے فیصلے سے متاثر نہ ہونے کا موقف اپناتے ہیں اور کیس کارروائی چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بنچ کے تین ممبران نے ناجانے کن وجوہات کی بنا پر مجھے مشاورت میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا، چاہتا تھا کہ یکم مارچ کے حکمنامے کے تناسب پر بننے والا تنازعہ پہلے حل کیا جائے۔ دوسری جانب یکم مارچ کا اکثریتی عدالتی حکم ابھی تک جاری نہیں کیا گیا، یکم مارچ کے حکمنامے کے معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، یہ کیس یکم مارچ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، اول دن سے کہتا رہا کہ کورٹ یکم مارچ کے آرڈر آف دی کورٹ کا تنازعہ حل کرے، اب تک یکم مارچ کے فیصلے کا آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا، نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے بھی معاملہ اٹھایا لیکن بنچ کے ارکان نے جواب نہیں دیا، ان حالات میں بنچ کا حصہ رہنا مناسب نہیں سمجھتا، بنچ کا حصہ رہ کر اپنے ساتھی ججز کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ کیس میں اہم آئینی امور زیر بحث ہیں، اہم آئینی امور فل کورٹ کی صورت میں مشترکہ دانش سے ہی حل کرنے چاہئے۔ فل کورٹ جب بھی بنا اس کے لیے دستیاب ہوں، بصورت دیگر دعا ہے کہ ساتھی ججز جو فیصلہ دیں وہ آئین کی بالادستی قائم کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل اور سنگین آئینی مسائل کو اٹھاتا ہے۔ فل عدالت کی اجتماعی حکمت کے ذریعے تشریح اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے میں ہمیشہ دستیاب رہوں گا۔ دوسری صورت میں میں عزت مآب چیف جسٹس اور دونوں ساتھی ججز سے استدعا ہے کہ آئین و قانون کی حکمرانی پر مبنی فیصلہ دیں۔ دوسری جانب پاکستان بار کونسل نے سیاسی مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی تناﺅ کو کم کرنے اور اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کو تیار ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا کی جانب سے جاری اعلامیئے میں کہا گیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال پر بہت پریشان کن ہے، عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون ہے۔ سپریم کورٹ ایک آئینی ملک کا اعلی ترین ادارہ ہے ۔ معزز ججوں کے درمیان فرق اس ادارے کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس بلایا جائے اور اس اجلاس میں تمام اندرونی مسائل حل کیے جائیں۔ ادھر پنجاب کے پی کے انتخابات میں ادھر پنجاب کے پی کے انتخابات کیس میں پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات کے دوران پر امن رہنے اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی عدالت میں یقین دہانی کرادی جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف حکومتی جبر جاری ہے، تاہم جمہوریت کی بقا کے لیے عدالت کو یقین دہانی کرا رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف پرامن رہے گی۔ اگرتمام سیاسی جماعتیں الیکشن مہم اور الیکشن کے دن پر پرامن رہیں گے، تاہم اگر انتخابات میں کوئی کرپٹ پریکٹس نا ہو، یقین دہانی میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی پرامن رہے گی اگر کسی قسم کے ہتھیاروں اور ایریل فائرنگ پر پابندی ہو، پی ٹی آئی صرف ان جگہوں پر جلسے اور ریلیاں نکالے گی جہاں سیکیورٹی کی یقین دہانی ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن