• news

3رکنی بنچ کا فیصلہ کون مانے گا؟ اقلیتی فیصلوں سے بحران بڑھے گا، فل کورٹ بنایا جائے:وفاقی وزرا

اسلام آباد ( نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ہم نے سیاسی بات چیت سے کبھی انکار نہیں کیا، اقلیتی فیصلوں سے بحران بڑھے گا، فیصلہ ایسا ہونا چاہئے جو سیاسی مستقبل کے لیے بھی مفید ہو۔رانا ثناء اللہ، مریم اورنگزیب کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج کی عدالت کی پروسیڈنگ سب کے سامنے ہے، 9 رکنی بینچ 5 رکنی بینچ میں تبدیل ہوا تھا، 4 معزز جج صاحبان نے عیاں کر دیا کہ پٹیشن خارج ہو چکی ہے، سپریم کورٹ میں اہم مقدمے کی سماعت چل رہی ہے، آج جسٹس مندوخیل نے سماعت سے معذرت کی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میری بھی رائے تھی معاملہ فل کورٹ میٹنگ میں جائے، اٹارنی جنرل نے بھی اسی طرح کی استدعا کی، چیف جسٹس صاحب نے مناسب سمجھا اور 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، یہ مسئلہ ایک بحران کی شکل و صورت اختیار کیے جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کا بھی ذکر ہوا، آج چیف جسٹس صاحب نے عندیہ دیا کہ دیگر ججز کو اعتماد میں لیں گے، جن معاملات میں تقسیم نظر آ رہی ہو اسے عدالت کو اکٹھے بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں میں اگر میچورٹی ہو تو اپوزیشن کے دوستوں کو یہ ماحول نہیں بنانا چاہیے تھا، ایسا فیصلہ ہو جو سیاسی مستقبل کے لیے بھی بہت مفید ہو، موجودہ حالات میں اگر تین رکنی بینچ سماعت کرے گا تو کہیں عدالت کے اندر سے آوازیں نہ اٹھنا شروع ہو جائیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل سیاسی لیڈرشپ بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی، اگر اقلیتی فیصلے کریں گے تو بحران مزید بڑھے گا، یہ ایک ایسا ملکی معاملہ ہے کیا ہی اچھا ہوتا ایک فل کورٹ بیٹھتا، آدھی سپریم کورٹ کہہ رہی ہے اس معاملے کو ہائی کورٹ میں حل ہونا چاہیے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اختلاف رائے کو نظر انداز کر کے وہ معاملے کو آگے لے جانا چاہتے ہیں، فل کورٹ کی آواز بار ایسوسی ایشن، سول سوسائٹی اور پارلیمان سے بھی آ رہی ہے، چیف جسٹس صاحب فل کورٹ کی میٹنگ کریں، ہم امید کرتے ہیں پیر والے دن اچھا سورج طلوع ہو گا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیاست دانوں کے مل بیٹھنے سے ہم نے بھی انکار نہیں کیا، جو سیاست دانوں کو یہ کہتے ہیں وہی اصول اپنے لیے بھی اپلائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی فیصلوں کو انفورس کیا جائے گا تو بحران مزید بڑھے گا، چیف جسٹس صاحب کو گھر کے بڑے کے طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ وزیرقانون نے کہا کہ تین رکنی بنچ نے جب سماعت شروع کی تو بھی نکتہ بار کونسل کے عہدیداران نے رکھا۔ ایک بہت بڑا آئینی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ مزید براں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال ملک کو انارکی کی طرف نہ دھکیلیں۔ رانا ثناء اللہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ کم ہوکر 7 رکنی ہوا پھر 5 کا ہوا پھر 4 اور آج ایک اور جج نے خود کو الگ کرلیا، جو جج صاحب الگ ہوئے وہ بڑے سینئر ہیں، ان کا اختلافی نوٹ بڑا افسوس ناک ہے، فیصلہ لکھتے وقت ان کی رائے نہیں لی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک قومی سانحے سے کم نہیں ہے، یہ بات ہماری بارز کیلئے بھی ایک المیہ ہے۔ رانا ثنا نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کا فیصلہ ایک عدالت کا فیصلہ ہے، میں نے آج تک نہیں سنا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک سرکلر سے ختم کر دیا جائے، سپریم کورٹ کے بینچ کے مقابلے میں رجسٹرار کی کوئی اہمیت نہیں ہے، قاضی فائز والے بینچ کا فیصلہ اس وقت تک چلے گا جب تک وہ چیلنج نہیں ہوتا، اس فیصلے کو سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ انتخابات کیس متنازع ہوچکا جس کے لیے ججز ہی نہیں مل رہے۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے  کہا کہ پنجاب اور خیبر پی کے میں انتخابات کیس کی سماعت جاری ہے، 9 ججز سے شروع ہونے والا معاملہ اب 3 ججز پر آپہنچا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر  ایک سرکلر جاری کیا گیا، ثابت ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انفرادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کیس کے لیے ججز نہیں مل رہے، یہ بنچ ایک متنازع بنچ بن چکا ہے جو جج اس کی سماعت میں ہی نہیں تھے ان کا فیصلہ بھی شامل کرلیا گیا، اگر اس 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا تو اسے کون مانے گا؟۔ اگر ترازو کے پلڑے برابر نہیں ہوں گے تو ملک میں بحران ہوگا۔ پھر ہر گلی اور محلے میں سپریم کورٹ لگے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک جماعت کی درخواست پر کیس سنا جا رہا ہے، کیا باقی جماعتیں پاکستان کی نہیں ہیں؟۔ جو بینچ فکس کیا جائے اس میں اجتماعی دانش ہونی چاہیے، اجتماعی دانش سے بینچ فکسنگ کا ابہام ختم ہوگا، اگر اجتماعی دانش سے بینچ بنے گا تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟۔  اس فیصلے میں ڈیمو کریسی ہوگی، تمام ججز کی برابری کا کانسیپٹ بحال ہوگا، اس سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو طاقت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اس کیس کی سماعت کا حصہ نہیں تھے، جسٹس اعجاز الاحسن عمل درآمد کے فیصلے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ایک پاگل شخص پورے ملک کو آگ لگانا چاہتا ہے، اسمبلیاں توڑنے سے لے کر معاملہ پولیس پر پیٹرول بم پھینکے تک جا پہنچا ہے، ایک شخص ملک کو یرغمال بنانا چاہتا ہے، اس شخص نے توشہ خانہ پر ڈاکے ڈالے ہیں، پہلے اس نے کاغذ لہرا کر سائفر کی کہانی گھڑی اور پھر اسمبلیاں توڑ دیں، ذہنی مریض شخص نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر سے غیر آئینی اقدامات کرائے۔

ای پیپر-دی نیشن