• news

استعفیٰ دے کر مکر جانا، عوام کے ساتھ مذاق ہورہا ہے: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ وکیل پر برہم

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ پہلے استعفا پھر مکر جانا،پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے؟۔ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی شکور شاد کی استعفا منظوری کے خلاف درخواست  کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے استعفا دیا، اس پر دستخط کیے تھے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہمارے دستخط تھے لیکن وہ استعفا پارٹی دباؤ میں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دستخط بس ایسے ہی کیے گئے؟ کیا کوئی مذاق ہے یہ ؟۔ کیا  ہو رہا ہے، آج آپ یہ کر رہے ہیں، کل آپ ملک کے لیے کیا کریں گے؟۔ آپ آرٹیکل 62 پر کیسے پورا اتریں گے ؟۔ آپ اپنے لوگوں اور ووٹرز  کے امانت  دار ہیں، آپ کیا کر رہے ہیں؟۔9 مارچ کا آرڈر تھا کہ آپ نے اپنے استعفے سے انکار کیا، وہ لیٹر ہے آپ کے پاس ؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ 29 جولائی کو استعفا منظور ہوا، اس عدالت نے ستمبر میں فیصلہ معطل کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے دستخط اصلی نہیں تھے؟، جس پر وکیل نے کہا دستخط تو اصلی تھے، مگر پارٹی پالیسی پر استعفا دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ استعفے پر پارٹی پالیسی کے خلاف جانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔  وہ تو منی بجٹ بل اور عدم اعتماد پر فرق پڑتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پارٹی پریشر پر استعفا دے دیا، آپ ملک کے لیے کیسے سٹینڈ لے سکتے ہیں ؟۔پہلے استعفا، پھر مکر جانا،پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے؟۔کیا آپ سسٹم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں،آپ سسٹم کو فن سمجھ رہے ہیں۔وکیل نے جواب میں کہا کہ ہم مانتے ہیں اصل اسٹیک ہولڈر عوام ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  پھر مذاق بھی تو عوام ہی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسی طرح کی دیگر رِٹ پر بھی ابھی آنا ہے ہم نے کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ ہم نے سپیکر قومی اسمبلی کو کہا کہ پارٹی پریشر پر استعفا  دیا، مگر سپیکر نے کہا کہ وہ جواب سے مطمئن نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپیکر نے ایسا کوئی لیٹر جاری کیا ہے؟چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ 3 مارچ 2023 کے لیٹر کو ریکارڈ پر لے کر آئیں۔  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی لیڈر شپ نے آپ کو پریشرائز کیا، اس کے خلاف دعویٰ دائر کریں۔ رِٹ میں شہادتیں نہیں لے سکتا۔ ہر چیز کو ہم نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، آپ نے پورے ملک کے لیے قانون سازی کرنی ہوتی ہے۔ اس پر کیا سب کو شاباش ملنی چاہیے؟ آپ قبول کریں کہ آپ نے غلط کیا ہے۔  دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل اختر چھینہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ عدالت نے شکور شاد کے استعفے منظوری کا سپیکر کا آرڈر طلب کرتے ہوئے  کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔

ای پیپر-دی نیشن