’’پنجاب کٹہرے میں‘‘
بنظرِغائر جائزہ لینے سے معلوم پڑتا ہے کہ تاریخِ عالم بالعموم تین طرح سے رقم کی گئی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک شاہِ وقت کے گرد درباری شعراء کے ساتھ ساتھ درباری موٗ رِّخین کی موجودگی بھی لازم سمجھی جاتی تھی۔ ایسے موٗ رِّخین شاہ کی وفاداری میں اُن کی عادات وخصائل کو دلکش لفظوں میں دھو کر، اجلااجلا سا بنا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ ’’صاحبِ دربار‘‘ کے عوام کے لئے رفاہی کاموں، اس کی ریاستی امورکی انجام دہی میں مہارت اور جنگ و مبارزت میں ’’بے مثال‘‘ بہادری وجرأت کے جسیم قصّے حوالہ قرطاس کرتے رہتے۔ دوسرے وہ لوگ تھے جو انعام و عنایت کے لالچ میں بادشاہوں سے متعلق من گھڑت قصے، قصیدے اور مدحتیںلکھ کر ’’قوّی حاملینِ حافظہ‘‘ لوگوں کی زبانی دور دراز کے علاقوں میں بھیجتے جہاں لوگ ’’منفرد و شیریں‘‘ قصّے سن کرسر دُھنتے۔تالیفِ تاریخ کی تیسری قسم وہ ہے جو محققین نے اپنی عقلِ سلیم کو استعمال کرتے ہوئے ماضی کے حالات و واقعات پر مبنی دستیاب مواد کو کھنگالتے ہوئے مرتب کی ۔تدوین ِ تاریخ کی اِن تینوں اقسام میں ہمیں آخری صورت زیادہ قرینِ انصاف و عقل لگتی ہے۔
تاریخ کے ساتھ یہ مذاق تب سے جاری ہے، جب سے تاریخ مرتب ہونا شروع ہوئی ۔ وطنِ عزیز ہی کی مثال لے لیجیے۔ قیامِ پاکستان سے آج تک جو تاریخ ہماری درسی کتابوں کا نصاب قرارپائی ہے اُس میں ہم نے طلباء کو، جنہوں نے مستقبل میںوطن کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ، باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بنگالی غلط لوگ تھے۔ وہ محبِ وطن نہیں تھے۔ اُن کے رہنما بھی غدار تھے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے تاریخ کے اوراق پر جمی ہوئی دبیز تہہ کو ہٹانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چاہیے تویہ کہ تاریخی حقائق جیسے بھی ہوں ویسے ہی انہیں سپردِقرطاس کیا جائے تا کہ عوام ’’ شعورِ حقیقی‘‘ سے سرفراز ہوں۔ لیکن ’’صاحبانِ اقتدار‘‘ اُن حقائق کو تاریخ بننے سے ہمیشہ روکنے کی بھر پور کوشش کرتے آئے ہیں جن سے ان کے اپنے کارناموں کی نقاب کشائی ہوتی ہو۔
پنجاب کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے موٗ رِّخین نے انتہائی بد دیانتی سے کام لیا ہے ۔ان میں خواہ ہندوستانی موٗ رِّخین ہوں ، سرحدی علاقہ میں بسنے والے یاوادیِ سندھ کے مغرب میں مقیم، و دیگر موٗ رِّخین ہوں، سبھی نے اپنے تئیں دُور کی کوڑیاں لاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجاب کے مکین روزِ اول سے لالچی تھے، اور اِنہوں نے ہر آنے والے حملہ آور کو خوش آمدید کہا ۔ اِن مورخین میں ایسے نام بھی شامل ہیں جنہیںہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن سُچی تحقیق کی کمی کے باعث بات سینہ بہ سینہ چلتی رہی، جھوٹ پھیلتا گیا ، سچ مٹتا گیا۔اس کا واضح ادراک ہمیں زیرمطالعہ کتاب ’’پنجاب کٹہرے میں‘‘ کی ورق گردانی کے دوران حاصل ہوتا ہے۔ کتاب کے مصنف امجد نواز وڑائچ نہ صرف سیاسیات کے استاد رہے ہیںبلکہ تحقیقی و تفتیشی صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے۔ ’’پنجاب کٹہرے میں‘‘ ان کی دہائیوں پر محیط تحقیق و تفتیش پر مبنی تحریر ہے جس میں انہوں نے پہلی بار پنجاب کی اصل سیاسی تاریخ قارئین کے سامنے لا کر رکھ دی ہے۔ مصنف یہ نتیجہ اخذکرنے میں حق بجانب ہے کہ پنجاب کے ساتھ ،بلکہ پنجابیوں کے ساتھ، متعصّب موٗ رِّخین نے معاندانہ رویہ اس لیے روا رکھا کہ وہ اپنے مشاہیر اور ہیروز کی پہچان کھو دیں ۔کیونکہ جس قوم کا کوئی ہیرو نہیں ہوتا اس قوم کا سر شرمندگی کے بار تلے ہمیشہ جھکا رہتا ہے۔ جن اقوام کے پاس مشاہیر اورہیروز ہوتے ہیں اُن کے ہاں غیرت، جرأت اور بہاردری کا تفاخر اُن کے حوصلے بلند رکھتا ہے ۔
مصنف نے حقائق کی کڑیاں باہم ملاتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ جہلم کے پارسکندراعظم نے پنجابی حکمران پورس کو شکست نہیں دی تھی۔ بلکہ سکندر اعظم کے پائوں مقامی لوگوں کی جرات اور ثابت قدمی کے سامنے نہ جم سکے تھے اور وہ واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوا تھا۔اس کے واپس جانے کے بعد بھی پورس ہی وہاں کا حکمران رہا تھا۔ اگر سکندر پورس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا تو اسے کبھی زندہ نہ چھوڑتا۔ کیونکہ حملہ آوروں کا یہی ’’طرزِ غارت گری‘‘ تھا۔سکندراعظم، امیر تیمور اور دیگر حملہ آوروں میں سے ایک ایک کا نام لے کر مصنف نے بتایا ہے کہ وہ جہاں بھی گئے، مقامی لوگوں کے خون کی ندیاں بہانے کے ساتھ ساتھ ان کے حکمرانوں کے سر بھی قلم کرتے گئے۔پھر تاج برطانیہ کے ہر موٗ رِّخ نے اس حقیقت کے اقرار سے رو گردانی کی ہے کہ امیر تیمورجیسے وحشی یا مغل فاتح بابر، یا ایرانی حملہ آور نادر شاہ اور خود انگریزوں کو پنجاب میںکس قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان موٗ رِّخین نے جسرت کھوکھر ،عبداللہ (دُلاّ) بھٹی یا احمد خان کھرل جیسے پنجابی سورمائوں کو ہیرو کی بجائے باغی کے طور پر پیش کیا ہے۔مصنف نے بر محل سوال اٹھایا ہے کہ جب حکمران بدیسی تھے اور پنجابی محکوم۔ شکست حکمرانوں کو ہوئی تو پنجابی محکوموں کو کیسے موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ وہ غیر ملکی حکمرانوں کوخوش آمدید کہتے رہے۔حالانکہ اگر پنجابی مزاحمت نہ کرتے تو سکندر کبھی شکست خوردہ واپسی کی راہ نہ لیتا۔ بقول مصنف انگریز حکمران نے جو تاریخ لکھوائی ،بعد میں آنے والوں نے اُسی کو ہی کلمہ حق سمجھا اور اسی بنیاد پر پنجابیوں کو گالی دیتے آ رہے ہیں۔
امجدنواز وڑائچ نے اپنے حصّے کا کام جانفشانی اور دیانت داری سے سر انجام دیا ہے۔ انہوں نے بھاری دلائل کے ساتھ پنجاب کو تاریخ کے کٹہرے میںسرخرو کیا ہے۔
٭…٭…٭